کتاب: محدث شمارہ 354 - صفحہ 8
مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَۙ ’’کسی بشرکے لئے جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو کتاب، حکومت اور نبوت عطا کرے پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ، لیکن اے انسانو! تمہارا فرض یہ ہونا چاہئے کہ ربانی بن جاؤ، کیونکہ تم اسی کی کتاب پڑھتےہو۔‘‘ اس آیتِ کریمہ سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں حاکمیت صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کو زیبا ہے اور اس حاکمیت میں کائنات کی عظیم ترین ہستی بھی معمولی سی شرکت نہیں رکھتی۔ حاکمیت کا یہ وصف قرآن کریم کی بہت سی آیت کی رو سے صرف اللہ تعالیٰ کو ہی لائق ہے۔ جب اسلام میں یہ حاکمیت صرف وحدہ لاشریک کا خاصہ ہے تو اس کے ماسوا سارے ربّ ذوالجلال کے محکوم ومطیع ہیں اور ان محکومین میں بجز اس کے کوئی فرق نہیں کہ اللہ خود کسی کو کسی حکم سے خصوصیت عطا فرما دیں، اگر یہ بات خود حاکم مطلق نے جاری نہیں فرمائی تو اللہ کی محکومیت واطاعت میں تمام انسان بلا استثنا بالکل مساوی ہیں اور ان کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ شریعت ِاسلامیہ میں حاکم اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے اور باقی سب محکوم ومطیع... اس سلسلے میں اُساریٰ بدر کے واقعے سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ اُن کے تمام پیروکاروں کو سخت الفاظ میں وعید سنائی تھی: مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ1ؕ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا1ۖۗ وَ اللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ1ؕ وَ اللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۰۰۶۷ لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ’’کسی نبی کو یہ لائق نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں حتیٰ کہ زمین میں خون ریزی کی جنگ نہ ہوجائے۔تم دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے معافی لکھ نہ دی گئی ہوتی تو تمہارے اس فیصلے کی پاداش میں بڑے عذاب کا سامنا کرنا پڑتا۔‘‘ احادیثِ مبارکہ میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عذاب بھی دکھایا گیا۔ تفصیل کے طالب پورے واقعے کی تفصیلات ملاحظہ فرما لیں۔ الغرض کسی بھی سیاسی نظام میں اہم ترین تصور ، اس کا تصورِ حاکمیت ہوتا ہے اور اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ خلافت وامارت کا مرکز وجوہر ہے۔ اللہ کی یہ