کتاب: محدث شمارہ 354 - صفحہ 7
شروع کردیا جائے، تاہم جہاں ایک جیسے انسانوں کے باہمی حقوق کی بات آئے یا قانون پر عمل درآمد کی بات ہو تو اس میں اسلام مساوات کی عین پاسداری کرتا ہے جو جمہوریت کے تصورِ مساوات سے بہت بلند اور کامل ہے۔
اللہ تعالیٰ کی تمام انسانیت پر بلااستثنا حاکمیتِ اعلیٰ
جمہوریت دراصل انسانوں کی اپنے جیسے انسانوں پر حاکمیت کا نام ہے جس میں ظاہری اور تقابلی اکثریت کی بنا پر بعض انسانوں کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر اپنے قانون چلانے کا حق مل جاتا ہے۔ جبکہ اسلام انسانوں کی بجائے اللہ کی حاکمیت کا نام ہے جس میں تمام انسان اپنے خالق کی عطا کردہ شریعت کے سامنے مطیع وفرماں بردار ہوتے ہیں۔ اگر جمہوریت میں حاکمیت کے اس تصور کو دیکھا جائے تو وہاں انسانوں کا حاکم اعلیٰ اُصولی طورپر باز پرس سے بالا تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں جمہوری سربراہوں اوربعض اوقات صدر جمہوریہ کو قانونی باز پرس سے استنثا کا اُصولی استحقاق حاصل ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے اسلامی جمہوری نظام میں قانون سے بالاتر ہونے کا یہ استحقاق صدر کے ساتھ صوبائی گورنروں کو بھی حاصل ہے جسے دستور پاکستان کی دفعہ 248 ب میں بیان کیاگیا ہے۔ دوسری طرف اسلام کے سیاسی نظام ’خلافت‘ کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں اللہ کے احکام سے بالاہونے کا معمولی سا استحقاق بھی کسی کو حاصل نہیں۔ جمہوریت میں یہ حق کسی بھی ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے کو حاصل ہے اور ریاست کے مختلف صوبوں کے گورنر حضرات کو بھی جبکہ اسلام میں خلیفہ راشد بھی اس استحقاق یعنی شرع سے بالاتری تو کجا، شریعت کی باز پرس سے بھی اپنے آپ کو بالا قرار نہیں دے سکتا۔یاد رہے کہ موجودہ وطنی ریاستوں کےبالمقابل خلافتِ اسلامیہ اپنی عظمت وسطوت اور دسعت وقوت کے لحاظ سے بہت عظیم ترہوتی ہے اور اللہ کی حاکمیت اعلیٰ خلافت وامارت کے نظام میں تمام افراد پر اس طرح غالب ومستحکم ہوتی ہے کہ انسانیت کے عظیم ترین مقام ’نبوت‘ کو بھی حاکمیتِ الٰہیہ کے سامنے کسی استثنا کا کوئی استحقاق حاصل نہیں ہوتا۔لاریب کہ سید المرسلین ، نبی الثقلین، پیغمبر آخرالزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی مخلوقات سے بہتر واعلیٰ ترین ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو کسی بھی اسلامی اجتماعیت کی غیرمعمولی قیادت عطا کرتا ہے اور مسلمانوں کے دین وایمان کو نبی مرسل پر ایمانِ کامل لانے سے مشروط کرتا ہے، اس کے باوجود قرآن کریم انبیا سے یوں خطاب کرتا ہے: