کتاب: محدث شمارہ 354 - صفحہ 6
جمہوریت کی حقیقت ان الفاظ میں کھول چکے ہیں: تو نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن ، اندرون چنگیز سے تاریک تر دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے ،آزادی کی ہے نیلم پری ہمارے حکمرانوں کو بھی اسی جمہوری نظام کے خانہ ساز دستور سے تحفظ لینے کے دعوے ہیں۔ ہم لوگ اس خانہ خراب جمہوریت سے پہلے ہی نالاں ہیں ، اوپر سے اس جمہوریت کے یہ برگ وبار... اللہ ہمارے اہل دانش کو سمجھائے کہ اَب تو اس سے باز آکر خالص اسلام کی طرح رجوع کرلیں...!! ---------------------- اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی صورت میں جہاں انسانوں کو اپنی بندگی کا طریقہ سکھایا، وہاں اُنہیں اپنی معاشرتی و اجتماعی زندگی گزارنے کے طور طریقے بھی واضح فرما دیے۔ اجتماعی نظاموں میں اہم ونمایاں ترین نظام سیاسی نظام ہوتا ہے جسے اسلام کے سیاسی نظام’ خلافت وامارت‘ کے طورپر جانا جاتا ہے۔ آج اُمتِ مسلمہ جمہوریت کے سحر میں کھوئی ہے اور ہرکوئی اسلام کے سیاسی نظام کے طورپر جمہوریت کے گن گاتا نظر آتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسلام کا شورائی نظام اور طریقہ انتخاب اہل مغرب نے جمہوریت کی شکل میں جذب کرلیا ہے۔ جبکہ اسلام کے شورائی نظام اور جمہوریت کے نظام فیصلہ وقانون سازی میں زمین وآسمان کا بُعد ہے، ایسے ہی اسلام کا مناصب پر تعین بھی جمہوریت کے نظام انتخاب سے بالکل مختلف ہے۔ ان دونوں پر پھر کبھی بات ہوگی....! جمہوریت کے تصورِ مساوات کا بڑی شدت سے ڈھنڈورا پیٹا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ اسلام نے مساوات کا جو تصور دیا ہے، یہی تصور جمہوریت میں بھی موجودہے۔ ذیل میں ہم جمہوریت اور اسلام کے تصورِ مساوات کا ایک مختصر جائزہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں: جمہوریت جو اہل مغرب کا متعارف کردہ نظام ہے، اس میں مساوات کا تصور ایک خاص سطح پر آکے رک گیا ہے۔ جبکہ اسلام کاتصورِ مساوات ہی حقیقی اور کامل ہے۔ یوں تو مساوات کا نعرہ بذاتِ خود ایک مغربی نعرہ ہے اور اسلام نے اس کی جگہ ’عدل‘ کی اصطلاح استعمال کی ہےکہ مختلف النوع ذمہ داریوں اور صنفوں کے لحاظ سے حقوق وفرائض کا وہی تناسب ہونا چاہئے جو عین عدل وانصاف کا تقاضا ہے، نہ کہ تمام لوگوں کو مساوات کے نام پرایک ہی لاٹھی سے ہانکنا