کتاب: محدث شمارہ 354 - صفحہ 19
ان کے بارے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
نظرت فى کلام الیهود والنصارىٰ والمجوس فما رأیت قومًا أضل في کفرهم من الجهمیة وإني لأستجهل من لا یکفرهم إلا من یعرف کفرهم وقال: ما أبالي صلیت خلف الجهمى والرافضى أم صلیت خلف الیهود والنصارىٰ [1]
’’میں نے یہود و نصاریٰ او رمجوس کے کلام میں غورو فکر کیا ہے پس میں نے کسی ایسی قوم کو نہیں دیکھا جو اپنے کفر میں جہمیہ سے بڑھ کر گمراہ ہو اور جو ان کی تکفیر نہیں کرتا میں اس کو جاہل سمجھتا ہوں سوائے اس کے جسے ان کے کفر کا علم ہی نہ ہو، اور (مزید) فرماتے ہیں : مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں جہمی اور رافضی کے پیچھے نماز پڑھ لوں یا یہودی اور عیسائی کے پیچھے۔‘‘
3) کرامیہ
یہ لوگ ابوعبداللہ محمد بن کرام المتوفی 255ھ کے پیروکار ہیں۔
ابوالفتح محمد عبدالکریم بن ابی بکر احمد شہرستانی راقم ہیں:
وقالوا: الإیمان هو الإقرار باللسان فقط دون التصدیق ودون سائر الأعمال [2]
’’اور (ان کرامیہ نے) کہاکہ ایمان دل سے تصدیق کرنے اور تمام اعمال کے بجائے صرف زبان سے اقرار کا نام ہے۔‘‘
ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
’’ ان کے نزدیک ایمان شےواحد ہے۔ ‘‘[3]
ان کے نزدیک منافق بھی باعتبار دنیا مؤمن ہے بلکہ کامل مؤمن ہے، البتہ وہ آخرت میں عذابِ ابدی کا مستحق ہے۔ چنانچہ شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے:
[1] شرح السنۃ للبغوی:1/194،195؛ خلق افعال العباد: رقم 31، 51
[2] الملل والنحل:1/104
[3] الایمان لابن تیمیہ:ص 155، 308