کتاب: محدث شمارہ 354 - صفحہ 17
الأئمة علىٰ عدم تکفیر هؤلاء المرجئة[1] ’’اور ان کی اکثر یت اہل کوفہ میں سے تھی (البتہ) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور ابراہیم نخعی اور ان جیسے لوگ مرجئہ میں سے نہیں تھے۔ اور یہ مرجئہ خوارج اور معتزلہ کی نقیض تھے۔ انہوں نے کہا کہ اعمال ایمان میں سے نہیں ہیں او ریہ بدعت (مرجئہ کی) بدعتوں میں سے سب سے زیادہ ہلکی ہے (سلف اور اَئمہ نے ان پر سخت نکیر و تغلیظ کی ہے البتہ) میں کسی کو نہیں جانتا جس نے ان کی تکفیر کی ہو بلکہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اس (مسئلہ ایمان) میں ان کی تکفیر نہیں کی جائے گی اور ان مرجئہ کی عدم تکفیر پر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ ائمہ سے نص ہے۔‘‘ 2) جہمیہ ایمان کی تعریف اور مفہوم ومراد کے لحاظ سے ایک گروہ جہمیہ کا ہے ۔یہ لوگ جہم بن صفوان کے پیروکار ہیں جو 128ھ میں قتل ہوا ،اسے مسلم بن احوذ مازنی نے ’مرو‘ کے مقام پر قتل کرا دیا تھا۔ موسوعۃ المیسرۃ میں ہے: من غالي منهم وقال إنه المعرفة وهو قول الجهم بن صفوان ومن وافقه. ویلزم من قولهم هٰذا أن ابلیس وفرعون لعنهما الله تعالىٰ کانا مؤمنین کاملى الإیمان وأن معنى الکفر عندهم هو الجهل بالرب تعالىٰ فقط وهذا النوع أشد أنواع الإرجاء و أخطرها [2] ’’اُن میں سے کچھ نے غلو اختیا رکیا او رکہا کہ ایمان معرفت ہے اور یہ جہم بن صفوان او راس کے موافق لوگوں کا قول ہے او ران کے اس قول سے لازم آتا ہے کہ ابلیس اور فرعون، ان پر اللہ کی لعنت ہو، مومن، کامل ایمان والے تھے، اور ان کے نزدیک کفر صرف ربّ تعالیٰ سے جہالت کا نام ہے او ریہ قسم اِرجا کی قسموں میں سے سب سے زیادہ سخت اور خطرناک ترین ہے۔‘‘
[1] مجموع الفتاویٰ:7/507 [2] الموسوعۃ المیسرۃ:2/1154