کتاب: محدث شمارہ 354 - صفحہ 14
ایمان وعقائد ابو عبد اللہ طارق [1]
دوسری وآخری قسط
اہل السنّۃ اور مُرجئہ کون ہیں؟
[اَئمہ اسلاف کی نظر میں]
ایمان زبان سے قول، دل سے تصدیق ا ورعمل صالحہ کا نام ہے، یہ ایمان کے تین ارکان ہیں اورجو شخص ان تینوں اراکین ایمان کا اعتقاد رکھتا ہے، وہ اہل السنہ والجماعۃ کے موقف پر ہے۔ البتہ جو شخص ان تینوں ارکان کا اعتقاد رکھنے کے باوجود عملاً کوتاہی یا گناہ کا ارتکاب کرے تو اُس سے اس کے ایمان کا درجہ تو کم ہوجاتا ہے، لیکن اس عملی کوتاہی سے وہ شخص مرجئہ نہیں بن جاتا بلکہ وہ اہل السنّہ ہی رہتا ہے، کیونکہ اِرجاءکا تعلق اعتقاد سے ہے ، نہ کہ عمل سے ۔آج جن علما کو بعض جذباتی حضرات مرجئہ ہونے کا الزام دیتے ہیں، تو اُنہیں یاد رہنا چاہئے کہ ان علما میں سے کوئی شخص اگر اعتقادِ فاسد رکھتا ہے تو اس پر تو دوسرا حکم لگانے کا اِمکان ہوسکتاہے، تاہم عملی کوتاہی کی بنا پر اُن کو کمتر ایمان کے مسلمان ہی قرار دیا جاسکتا ہے نہ کہ مرجئہ۔ زیر نظر مضمون کا مقصد ائمۂ سلف کے نزدیک ارجا کی حقیقت کو واضح کرنا اور اہل السنّۃ والجماعۃ میں شامل بعض سلفی علما پر لگائے جانے والے اِرجا کے الزام کا ابطال کرنا ہے۔ اس مضمون کا مقصد نہ تو کسی گروہ کی دل آزاری یا کسی قسم کی فتویٰ بازی ہے اور نہ ہی یہاں تکفیر اور عدم تکفیرکے اُصول وضوابط کو پیش کرنا مقصود ہے۔ مدیر
اہل السنۃ والجماعۃ اور سلف صالحین کے نزدیک ایمان او راِرجاء کا مفہوم کیا ہے؟ یہ بات اس زِیر نظر مضمون کی قسط اول میں بالتفصیل بیان ہو چکی ہے ۔ اسی کی روشنی میں اَب مزید بیان کیا جائے گا کہ
’’سلف کے نزدیک مسئلہ ایمان میں مرجئہ کا اطلاق کن گروہوں پر کیا گیا اور ان کے
[1] مدرّس جامعہ لاہور اسلامیہ (البیت العتیق ، برانچ جوہرٹاؤن)، لاہور