کتاب: محدث شمارہ 354 - صفحہ 13
جمہوریت کا ہی حسن ہیں، جس میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار ، سیاسی کشمکش سے عوام کو اُلجھائے رکھتی ہیں۔مغربی افواج وطن کی مٹی پر قربان ہوتیں، اس کے تقدس کے لئے لڑتی ہیں اور ان کے کردار کا تعین شریعت کی بجائے انسانوں کا بنایا دستور کرتا ہے۔ دستور کے نام پر قرآن وسنت کے مقابل ایک دستاویز کو وہی تقدس دیا جاتا ہے جو دراصل شریعتِ الٰہیہ کا حق ہے۔پھردستور کے نام پرغالب انسانوں کی دوسروں پر حاکمیت بروے کار لائی جاتی ہے، پھر یہ حاکمیت قانون سازی کے ذریعے پورے عدالتی نظام کی صورت میں مسلمانوں پر قائم ونافذ کردی جاتی ہے۔ مغرب کا تعلیمی نظام ، مادہ پرست معاشرے کے قیام اور دنیا سے استمتاع پر استوار ہے۔اس تعلیمی نظام کی حامل یونیورسٹیوں میں یا تو علوم اسلامیہ کے شعبے ہوتے ہی نہیں ، اگر ہوں تو برائے نام اور دنیا سے تمتع کے لئے متعارف ہونے والی علوم وسائنسز سے یہ یونیورسٹیاں بھری پڑی ہوتی ہیں۔ سائنس وانجنیئرنگ اور میڈیکل کی آئے روز نت نئی شاخوں میں ریسرچ کی اور تعلیم دی جاتی ہے اور اسلامیات کا ایک کمزور سا شعبہ بھی ملحدانہ نگاہوں میں کھٹکتا ہے۔جمہوریت کا ابلاغی نظام فلم وڈرامہ، موسیقی اور فحاشی کی صورت میں خواہشاتِ نفس کی حکمرانی کا دوسرا نام ہے جس میں کبھی طنز وتمسخراورکبھی جستجووتجسس کو ہی پورا آرٹ بنا دیا گیا ہے۔ الغرض نظام خلافت اللہ کی حاکمیت ، زندگی کے ہر طبقے میں قائم کرنے کا نام ہے تو جمہوریت انسانی خواہشات کی حاکمیت کو زندگی کے ہر طبقے میں لانے کا سیاسی آلہ ہے اور دونوں کے نتائج کبھی ایک سے نہیں ہوسکتے۔ایک اللہ کی حاکمیت ہے تو دوسری انسانوں کی !... پھر کیوں کر اسلام،جمہوریت کے درخت پر ثمر آور ہوسکتا ہے۔ اس بنا پر جمہوریت کے ذریعے اسلامی برکات کا حصول بالکل ایسی ہی بات ہے کہ ہمارا رخ مخالف سمت ہو اور ہم منزل پر پہنچنے کا دھوکہ کھائے بیٹھے ہوں۔یا تو جمہوریت کی روح یعنی خواہش نفس کی حاکمیت کو بدل کر، اسلام کی روح یعنی اللہ کی بندگی اور حاکمیتِ الٰہیہ میں تبدیل کردیا جائے اور جمہوریت صرف برائے نام رہ جائے، وگرنہ محض اسلامی نام رکھ دینے سے جمہوری نظاموں سے کبھی اسلام کی برکات نصیب نہ ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ اہل اسلام کو عقل وبصیرت عطا فرمائے۔ آمین! (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)