کتاب: محدث شمارہ 354 - صفحہ 12
اپنے اور دوسروں پر نفاذ کی اہلیت قرار پائے۔جب کوئی حکمران اپنے اوپر حکم الٰہی کا نفاذ چھوڑ دے یعنی کفر بواح یا اقامت ِصلوٰۃ وغیرہ تو اُس کی اطاعت بھی مسلمانوں پر لازم نہ ٹھہرے۔ مسلم حکومت کا پورا کردار معاشرے کے ہر نظام میں اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے پر مرتکز ہو۔مسلم فوجیں اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے ، دین کے تحفظ اور دین کے دفاع کے لئے میدانِ جہاد میں آئیں، اگر اُنہیں شریعتِ اسلامیہ کے خلاف حکم دیا جائے تو خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت ہرگز نہ کریں۔ تعلیم وابلاغ کے میدان میں حاکمیتِ الٰہیہ کی بنا پر تمام کلمہ پڑھنے والوں کو اُسی کی طرف بلایا جائے۔اللہ کے دین کی تعلیم اور عمل ہی معاشرے میں عظمت وسربلندی کی اساس ہو۔ مسلمانوں کا خزانہ یعنی بیت المال، اللہ کے احکامات کی اتباع میں ہی، شریعت کی ذکرکردہ ترجیحات میں خرچ کیا جائے۔ معیشت میں اسلام کا سکہ چلتا ہو، سود ٹیکس جوا ختم کرکے، شریعت کا نظام معیشت:زکوٰۃ، عشر، صدقات، خمس، مال فے، خراج وغیرہ کو لاگو کیا جائے۔مضاربت ومشارکت اور جائز کاروباروں کا رواج ہو۔یہ سب اللہ کی حاکمیت کے ہی تقاضے ہیں۔ عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو اللہ کو ماننے والے تمام مسلمان ایک اُمت، ایک ملت اور جسدِ واحد ہوں، خلافتِ اسلامیہ میں وطنی ریاستوں کی ایسی سرحدیں ختم کر دی جائیں جو اللہ کے فرمانبرداروں کو بانٹ اور تقسیم کرکے رکھ دیں۔
یہ ہیں خلافت کے وہ نظریات جن سے مغرب لرزہ براَندام ہے اور دنیا میں کہیں بھی نظام امارت کے کسی امکانی آغاز میں بھی اس کو اپنی موت نظر آتی ہے۔نظام خلافت کا اصل جوہر ہرمرحلۂ زندگی میں شریعتِ اسلامیہ کے غلبہ کی صورت میں حاکمیتِ الٰہیہ کاقیام ہے، جس کو بلاوجہ ہیبت ناک آمریت یا پاپائیت وتھیاکریسی سے جوڑ کراس کے بالمقابل جمہوریت کو انسانی آزادی کے علم بردار نظام کے طورپر پیش کردیا جاتا ہے۔مغرب کے سب سے بڑے نظریاتی مخالف وہ مسلمان ہیں جو خلافت کا احیا چاہتے، اس کی تفصیلات جاننے اور سمجھنے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔ جمہوریت نوازوں سے مغرب کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ جمہوریت وطنیت پرستی ہے، ریاستوں میں تقسیم ہوکر ملت کو قوموں(نیشنز) میں منقسم کر دینا ہے، پھرایک نظریہ رکھنے والی قوم کو سیاسی جماعتوں میں بانٹ کر باہم صف آرا کرنا ہے۔ یہ مقابل ومخالف صف آرا جماعتیں دورِ نبوی اور دور خلافتِ راشدہ میں کہاں نظر آتی ہیں، یہ صرف اس