کتاب: محدث شمارہ 354 - صفحہ 11
مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا)) [1] ’’وہ لوگ جو تم سے پہلے تھے ، اسی وجہ سے ہلاک ہوگئے کہ جب اُن میں سے کوئی معزز آدمی چوری کیا کرتا تو اُس کو چھوڑ دیتے تھے۔اور جب کوئی کمزوریا عام آدمی چوری کرتا تو اُس پر اللہ کی حد کو قائم کرتے تھے۔ اللہ کی قسم ! اگر میری بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بھی چوری کرتی تو میں اُس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ اس واقعہ سے بخوبی علم ہوجاتاہے کہ اللہ کی شریعت کو کسی بھی انسان سے بالاتر کرنے کا اختیار نہ کسی نبی ولی کے پاس ہے اور خلیفہ وگورنر اور چھوٹے چھوٹے قطعوں پر پھیلی وطنی ریاستوں کے مسلم حکمران تو کسی قطار شمار میں بھی نہیں آتے۔ نظریہ وہی ایک ہے کہ خلافتِ اسلامیہ میں حاکمیتِ تامہ صرف باری تعالیٰ کو لائق ہے، اس میں کوئی شریک نہیں، اُسی کا قانون چلتا ہے اور اس قانون سے نہ کوئی خود مستثنیٰ ہوسکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو مستثنیٰ کرواسکتا ہے۔ جبکہ پاکستانی کی اسلامی جمہوریت میں حاکمیتِ الٰہیہ کا نعرہ دستور مرتب کرنے والوں نے دستور کے سرنامہ میں بطورِ زیبائش تو درج کردیا ہے ، داخل میں اس حاکمیت کو کہیں کوئی تاثیرہی نہیں دی، اورپورا ڈھانچہ مغربی جمہوریت کا ہی رکھ چھوڑا ہے۔ ہمارے بھولے اسلام پسند دانشور بھی اسی پر مطمئن ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی مغربی جمہوریت تھوڑی ہے ، یہ تو اسلامی جمہوریت ہے ، اسلامی!! اس پر اسلامی کا سابقہ ہی بتارہا ہے کہ یہ دراصل کفار کا بنایانظام ہے جس کو اسلام کا لفظ لگا کر حلقہ بگوش اسلام کرنا پڑتا ہے۔ اس موضوع کی دیگر تفصیلات راقم نے اسی شمارہ محدث میں مطبوعہ اپنے انٹرویو میں پیش کردی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ خلفائے راشدین نے شرعِ اسلامی کے سامنے اپنے آپ کو سرنگوں کیا اور مسلم سپہ سالاروں نے اس کی غیرمشروط اتباع کی۔ (دیکھیں صفحہ نمبر70) اسلام میں اللہ جل جلالہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کاتصور یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہرمقام پر اس کی کارفرمائی نظر آئے۔ اللہ کی حاکمیت شریعتِ الٰہیہ کےغلبے کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔حکمران بھی اس کے مطیع ہوں، عدالتیں بھی اللہ کی شرع کے مطابق ہی فیصلے کریں نہ کہ انسانوں کے بنائے قوانین کے مطابق۔ ہر حکمران کے تعین کی اصل اساس شریعتِ اسلامیہ کی
[1] صحیح بخاری: 3216