کتاب: محدث شمارہ 354 - صفحہ 10
اکثریت حاصل کرنے والوں کا تابع فرمان بن کررہنا پڑتا ہے۔
جمہوریت میں بعض انسان، قانون کو معطل کرسکتے ہیں!
جس طرح اسلام میں کوئی عظیم سے عظیم انسان ، خالق کی شریعت کے سامنے بالاتری کا دعویٰ نہیں کرسکتا، اسی طرح اسلام میں نظم اجتماعی کا عظیم ترین منصب دار بھی اللہ کے قانون سے کسی کو استثنا دلوا نہیں سکتا، جبکہ جمہوریت کی صورت حال اس سے مختلف ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جمہوریت میں صدر جمہوریہ، کسی بھی انسان کی سزا معاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے کیونکہ وہ اپنے جیسے انسانوں کے بنائے قانون کا مرکز ومحور ہے اور اُسے اس قانون میں خصوصی اختیار ات دئیے گئے ہیں۔ پاکستان اور دیگر جمہوریاؤں کے بہت سے صدور نے اس بنا پر کئی مجرموں کی سزاے موت کو معاف کردیا ہے۔گویا جمہوریت میں انسانی قوانین کا مرکز، کسی شخص پر اس قانون کو معطل کرنے کا اختیار رکھتا ہے جبکہ اسلام میں اس کا بھی کوئی تصور نہیں ہے۔ اسلام یعنی خلافتِ اسلامیہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا نظام ہے اور اس نظام کو معطل کرنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے۔ کسی خلیفہ گورنر تو کجا، عظیم الشان سیاسی و دینی شخصیت صلی اللہ علیہ وسلم ، جن کے سیاسی منصب کی خلافت بعد میں تمام مسلم خلفا کو حاصل ہوتی ہے، نے بھی اس استحقاق کو استعمال کرنے سے انکار کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا مطالبہ کرنے والوں سے شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ کتبِ حدیث کا مشہور واقعہ ہے کہ قریش کے قبیلہ بنومخزوم کی عورت نے چوری کرلی، شرفاے قریش کو خطرہ لاحق ہوگیا کہ اگر اس عورت پر سزاے سرقہ نافذ کردی گئی توقبیلہ قریش کی سیادت ووجاہت خاک میں مل جائے گی۔ اُنہوں نے اسامہ رضی اللہ عنہ بن زید کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کے لئے آمادہ کیا اور سیدنا اُسامہ رسالت مآب سے ملتمس ہوئے، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہوئے، منبر منگوایا اور یوں ارشاد فرمایا:
(( أتشفع في حد من حدود الله؟))
’’اے اُسامہ رضی اللہ عنہ ! کیا تم اللہ کی حد میں سفارش کرتے ہو؟‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر نبوی پر خطبہ دیا ۔ فرمایا:
(( إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ