کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 9
اُرید بہا الباطل‘کے مشہور جملہ سے اس کا دندان شکن جواب دیا۔ معتزلہ نے اپنے نظریاتی انحراف کو جواز دینے کے لئے اہل العدل والتوحید کا نام اختیار کیا جسے ائمۂ اسلاف رحمۃ اللہ علیہم نے دلائل کی رو سے باطل ثابت کیا۔ ملت ِاسلامیہ میں اہل تشیع نے تیرہ صدیوں سےملی انتشار کا رویہ اپنایا اور آج اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی بصیرت کے پیرو شیعہ ’وحدتِ ملی اور اتحاد بین المسلمین‘ کو اپنا شعار بنا کر مصروفِ جہد ہیں۔اسی طرح دورِ حاضر کی ظالم وجارح ریاست امریکہ دنیا بھر میں ظلم وبربریت اور جنگ و ہلاکت مسلط کرتا ہے تو ’امن‘ اور ’حقوقِ انسانی‘ کو اپنا سلوگن بنا کر پیش کرتا اور پوری دنیا کو کھلا مغالطہ دیتا ہے۔امریکہ دنیا کا ایسا ملک ہے جس کی اہم ترین صنعت وبرآمد ہی عسکری سازوسامان ہے۔ سرد جنگ کے بعد ملت ِاسلامیہ کا نیا شکار اسی لئے تراشا گیا ہے کہ امریکہ کی عسکری صنعت کو زوال نہ آئے اور جنگ کا کاروبار جاری رہے۔راقم الحروف کو 2006ء میں امریکہ کا دورہ کرایا گیا جس میں واشنگٹن میں ’یوایس انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز ‘میں بھی مجھے لے جایا گیا جو امریکی لابی کا مرکزی ادارہ ہے ۔ اور میں اس مذاکرہ میں یہ نشاندہی کردینا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں قائم این جی او جو آج کے مکالمہ کی منتظم ومیزبان ہے، اس کا نام ہو بہو وہی ہے جو واشنگٹن کے ادارہ امن کا ہے، صرف یوایس کی جگہ پاکستان کا فرق ہے۔آج ہمارا میزبان ادارہ امن کے فروغ کی بات کرتا ہے۔ یہ ادارہ اپنے دعویٰ میں اُس وقت سچا ثابت ہوگا جب امن کے اصل مجرموں: امریکہ اور عالمی استعمار کے خلاف بھی یہ سیمینار اور مذاکرے منعقد کرے اور جب یہ این جی او امن وسلامتی کے دشمن مسلم ممالک کے ظالم حکمرانوں کی عوام شکن پالیسیوں کو بھی ہدفِ تنقید بنائے، جن سے دنیا کا امن مجروح ہوکر رہ گیا ہے۔تصویر کا صرف ایک رخ پیش کرنا امن کے لئے کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ سیاسی تکفیر وخروج کے پیرو غلط منہاج پر کاربند ہیں، لیکن ان کو غلط کہنے والی زبانیں اور اُن کی اصلاح کے لئے مجتمع ہونے والے اہل علم اُن کی کوتاہی کی اصل وجہ کو ترک کردیں اور اصل ظالم کو نظرانداز کرکے صرف مظلوم سرحدی عوام کی مذمت پر اکتفا کریں تو یہ بھی ایسا’ کلمہ حق‘ ہے جس کا مقصد آخرکار باطل کی تقویت ہے۔کرنے کا کام یہ ہے کہ ظلم وبربریت کو کسی بھی طرح قبول نہ کیا جائے، اس کے خلاف ہر طرح مزاحمت کی جائے اور ظلم کے دفاع کے لئے جائز راستے تلاش کرنے اور ان راستوں پر عمل پیرا ہونے والوں کی ممکنہ تائید ومعاونت پر مجالس ومباحثے منعقد کیے جائیں، کیونکہ مسائل کا دائمی اور حقیقی حل اسی صورت ممکن ہے جب ان کو مبنی بر حقائق و انصاف طریقے سے حل کیاجائے، کسی حقیقی مسئلہ کو وقتی طورپر دبا دینا اور کسی متاثرہ فریق کو مجبور کردیناکبھی بھی دائمی امن وسکون کی کافی بنیاد نہیں بن سکتا۔