کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 8
خلط ِمبحث کرتے ہوئے ان طالبان کو فکری طورپر تکفیر وخروج کی بحثوں میں اُلجھایا گیا ۔ دراصل اہل پاکستان کا یہ المیہ ایک سیاسی اور عوامی سانحہ ہے۔ جب بلوچستان کے عوام کو اُن کا حق نہیں دیا جاتا اور وہ ’بلوچستان لبریشن آرمی‘ کے نام پر اپنے حقوق کی جدوجہد کرتے ہیں، تو اسےایک عوامی جدوجہدسمجھا جاتا ہے، اسی طرح جب سرحدکے لوگوں پر ظلم کیا جاتا ہے تو اسے اہل سرحد کا حق دفاع ہی کیوں نہیں قرار دیا جاتا؟اس کو شریعت سے خلط ملط کرنا نت نئی اُلجھنیں پیدا کردیتا ہے!! سیاسی تکفیریوں سے قبل استعمار اور آمر مسلم حکمرانوں کی مذمت ضروری ہے! 4. یہ درست ہے کہ احادیث میں خروج وغیرہ کے بارے میں ممانعت کا غالب رجحان پایا جاتا ہے، تاہم بعض واضح صورتوں میں خروج کی اجازت بھی احادیثِ نبویہ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔اُموی دور کے خروج کے نتائج کو دیکھتے ہوئے فقہاے کرام کے اقوال میں بھی اِس کی زیادہ تائید نہیں ملتی ، لیکن اگر ہم ان احادیث یا فقہی جزئیات سے آج استدلال کرنے پر مصر ہیں، جو آج کے مذاکرے کا مقصد ومنشا معلوم ہوتا ہے، تو اس سے پہلے اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اُس عالمی استعمار اور امریکہ کی بھی مذمت کریں جس نے ملت ِاسلامیہ کو آسان شکار سمجھ کر، دودہائیوں سے اس کی سالمیت سے کھیلنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ اس کے بعد ہمیں مسلمانوں کے ان حکمرانوں کی مذمت کرنا چاہئے جنہوں نے عالمی استعمار کا آلہ کار بن کر اپنی ہی قوموں کو فتح کرنا اور ان کو امریکہ کے حوالے کرکے ڈالرکمانا اور سیاسی تائید حاصل کرنے کا مکروہ دھندا شروع کررکھا ہے۔ کیا آج ہم لاہور کے اہل علم ودانش ، اپنے قول وبیان کے ذریعے اس امر کے لئے جمع ہوئے ہیں کہ ہم پاکستان کے سرحدی عوام پر ظلم کے خاتمے کی کوئی مؤثر جدوجہد کرنے سے تو قاصر ہیں لیکن ان مظلوموں سے مزاحمت اور ظلم کے خلاف دفاع کا حق بھی ، خروج کی ممانعت کی احادیث پڑھ پڑھ کر چھین لیں؟ تاکہ کوئی مظلوم اگر اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا دفاع کرتا ہوا مارا جائے تو ہمارے دلوں میں اس مسلمان بھائی کے خلاف ہمدردی کا شائبہ بھی نہ ہو۔یہ اسلام اور پاکستان کی کوئی خدمت نہیں بلکہ من وجہ ظلم کی ہی تائید ہے۔ اس مکالمہ کے شرکا کا مثبت کردار یہ ہونا چاہئے کہ وہ اگر تکفیر وخروج کےسلسلے کو غلط سمجھتے ہیں ...اور امر واقعہ بھی یہی ہے ...تو پھر سرحدی عوام کے لئے اُن مثبت راہوں کی نشاندہی کریں ، جس کے ذریعے وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم وستم کا خاتمہ کرسکیں اور اُنہیں بھی چین وسکون کا جائز حق میسر آسکے۔ خوشنما نعروں سے دوسرں کا استحصال باطل کا قدیم ہتھیار ہے! 5. تاریخ میں ہمیشہ سے باطل قوتوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ خوش نما نعروں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں، خارجیوں نے قرآن کو حکم بنانے کا نعرہ گھڑا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ’کلمۃ حق