کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 7
ملک افغانستان پر امریکہ کی بلاجواز بہیمانہ جارحیت کے بعد پاکستان میں حالیہ دہشت گردی اور اس سے متعلقہ مباحث ِتکفیروخروج وغیرہ کا آغاز ہوا۔ شمالی علاقہ جات، وزیرستان وسوات اور فاٹا وقبائلی علاقوں میں اس سے پہلے بھی پرامن پاکستانی بستے تھے، لیکن امن وامان کی پچاس برسوں میں کبھی وہ صورتحال نہ ہوئی جس کا سامنا گذشتہ دس برس سے یہ علاقے کررہے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان میں ڈیرے جمالئے، ہمارے آمر وغاصب حکمرانوں نے اپنی کمزور سیاسی حیثیت کی بنا پر، امریکی دھمکیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور بدلے میں اُس کی تائید کے طالب ہوئے، پاکستان کے سرکاری ادارے امریکی مفادات کے رکھوالے بن گئے اور عرب وافغان مجاہدین کو ڈالروں کے بدلے امریکی جیلوں میں بھر کر ملت اور قوم سے غداری اور بے وفائی کی سیاہ داستانیں رقم کی گئیں۔پاکستان کو اس وقت تک بھی دہشت گردی اور تکفیر وخروج کے خونخوار عفریت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، حتیٰ کہ 2007ء میں لال مسجد میں عفت مآب بچیوں کو خون میں نہلا دیا گیا، ان کی کٹی اُنگلیاں اور قرآنِ کریم کے بریدہ اوراق اسلام آباد کے ندی نالوں میں پائے گئے، تب ظلم وستم کا شکار لوگ پاکستان کے پالیسی سازوں اور ہئیت ِمقتدرہ کے خلاف کمربستہ ہوگئے۔ یہ واضح طورپر ظلم کے خلاف ایک عوامی ردّعمل تھا جس کے لئے شریعت ِاسلامیہ سے تائید لینے کی کوشش کی گئی۔ظلم کے خلاف دفاع اور عوامی مزاحمت کو سند ِجواز دینے کے لئے حکمرانوں کی تکفیر کے نظریہ کا اس مرحلہ پر پھیلنا اور اس کے بعد ان کے خلاف خروج کا رجحان اپنے اندر واضح معنویت رکھتا ہے۔توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ ملت ِاسلامیہ میں ہر مقام پر سیاسی تکفیر وخروج کا نظریہ اس گروہ میں پروان چڑھا جو ظلم وستم کا براہِ راست نشانہ بنا۔ اگرچہ اقامت ِدین کا نظریہ حالیہ دینی و سیاسی تناظر میں بنیادی طور پر جماعت ِاسلامی کا متعارف کردہ ہے لیکن پاکستان کی جماعت ِاسلامی چونکہ جمہوری جدوجہد کے ذریعے سیاسی سرگرمی میں اپنی توانائیاں صرف کررہی ہے اور اُنہیں الحمد للہ اخوان جیسے شدید ظلم وستم کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا؛ اس کے مقابل دیکھا جائے تو صوبہ سرحدکے طالبان حنفی مکتبِ فکر کے حامل ہونے کے ساتھ، ماضی میں اقامت ِدین کا کوئی واضح مطالبہ نہ رکھتے تھے، توحید ِحاکمیت وغیرہ کا کوئی سیاسی رجحان بھی اُن کے ہاں نہیں ملتا، اس کے باوجودجب حنفی طالبان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے تو اُنہوں نے سیاسی تکفیر وخروج میں پناہ لی اور پاکستان کی جماعتِ اسلامی اقامت دین کے اس منظر نامے سے خارج رہی۔ان تقابلی حقائق سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُمت ِمسلمہ میں تکفیر وخروج کی حالیہ بحثیں ظلم اور اس کا ردّعمل ہیں۔ بلکہ اگر یہ بھی کہا جائے کہ جس طرح امریکہ نے طالبان کی مزاحمتی تحریک سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے ان کے نام وتشخص سے بے شماردہشت گردانہ کاروائیاں منسوب کردیں اور طالبان گروہوں میں اپنے افراد شامل کرکے اُن کو پاکستان میں انتہاپسندی پر آمادہ کیا، اسی طرح