کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 6
بھی مذاکرہ کا جولائحہ عمل ہمیں پہلے فراہم کیا گیا تھا، اس میں ایک مخصوص فکر ی رجحان ، اور مباحث کے مابین موجود معنوی ربط ، مذاکرہ کے مقصد وہدف کی طرف واضح اشارہ کررہا تھا، اسی لئے ہم نے فقہی وشرعی بحث میں زیادہ وقت صرف کرنے کی بجائے مسئلہ کے سیاسی پہلو کو ہی پیش نظر رکھا۔ ذیل میں مکالمہ کی کاروائی سے قطع نظر راقم کی گفتگو، اور مباحثے کے مرکزی سوال سے متعلق اپنا نقطہ نظر بعض ضروری تفصیلات کے بعد قارئین ’محدث ‘کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ راقم نے اپنے خطاب کے آغاز میں بعض مقدمات اورسوالا ت قائم کئے اورحسب ِذیل معروضات پیش کیں:
1. اگر تکفیر کے ساتھ خروج کو ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ منتظمین کے پیش نظر تکفیر کا وہ مخمصہ نہیں جس سے پاکستانیوں کو 80،90 کی دہائی میں شیعہ سنی تکفیر وغیرہ کے مرحلے پر واسطہ پیش آیا تھا۔ زیر بحث تکفیر سے مراد وہ مباحث ہیں جو تکفیر کرنے والوں کو آخر کار حکومت سے بغاوت اور خروج کی طرف لے جاتے ہیں۔
2. اس تکفیر وخروج کی شرعی حیثیت پر گفتگو سے قبل ہمیں فقہ الواقع یا صورتِ واقعہ پر غور کرنا ہوگا کہ ہم اس شرعی بحث اور اس کے نتیجے کا اطلاق کن لوگوں پر کرنا چاہتے ہیں؟ فقہ الواقع کے تعین سے قبل شریعتِ اسلامیہ کی متعلقہ نصوص کو نکال کر محض پیش کردینا ہی کافی نہیں کیونکہ یہ نصوص تو اِس سے قبل بھی تراث ِاسلامی میں موجود ہیں۔
تکفیروخروج کا موجودہ منظر نامہ ملتِ اسلامیہ پر ظلم کا ردّعمل ہے!
3. ملتِ اسلامیہ میں خروج پر منتج ہونے والی تکفیر (یعنی سیاسی تکفیر یا حکمرانوں کی تکفیر) کی تحریک کا پورا منظر نامہ دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سیاسی تکفیر خالصتاً مسلم حکمرانوں کے ظلم وستم کے ردّعمل پر مبنی ہے اور کوئی خالص شرعی یا فقہی مسئلہ نہیں ہے۔حالیہ اسلامی تاریخ میں ساٹھ کی دہائی میں مصر میں الاخوان المسلمون سے نکلنے والے بعض نوجوانوں نے ’اصحاب الہجرۃ والتکفیر ‘ کے نام سے تکفیری سلسلے کا آغاز کیا۔ واضح ر ہے کہ ان سالوں میں مصر کے صدر جمال عبد الناصر نے الاخوان المسلمون پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے، شیخ حسن البنا کو بہیمانہ طور شہید کیا گیا اور سید قطب رحمۃ اللہ علیہم کو پھانسی کے گھاٹ اُتاردیا گیا تھا، کئی اخوانیوں کو کتوں سے نُچوایا گیااور اخوان کے پیروکاروں پر زندگی کی راہیں مسدود کردی گئی تھیں۔ بعدازاں سعودی عرب میں 90 کی دہائی میں خلیجی جنگ کے بعد امریکی مداخلت اور امریکی فوجی بیسز کا قیام وہ منظرنامہ ہے جس کے بعد اُسامہ بن لادن اور ان کے رفقا نے سعودی حکمرانوں کی تکفیر کے مباحث کا آغاز کیا۔ توحید ِحاکمیت کا ایک سیاسی نظریہ متعارف کرایا گیا،امریکی استعمار کی جارحیت و مداخلت سے قبل سعودی عرب میں یہ بحثیں نہیں ملتی۔ پاکستان کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ