کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 51
دوسری حکمت 1. ﴿وَ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ1ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ [1] ’’میں تمہیں جو تبلیغ کررہا ہوں، اس کا کوئی اجر تم سے نہیں مانگتا بلکہ اس کا اجر ربّ العالمین ہی کے ذمہ ہے جوقیامت کو وہ عطا فرمائے گا۔‘‘ 2. ﴿قُلْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى﴾ [2] ’’آپ کہہ دیجئے میں اس (تبلیغ)پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری[3] کی۔‘‘ ان دونوں آیاتِ کریمہ کی تصریح کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کا تبلیغ رسالت کے بارے میں یہ طریقہ رہا کہ وہ بغیر کسی معاوضہ کے احکامِ الٰہیہ کی تبلیغ فرماتے تھے اور اعلان کرتے تھے کہ ہم آپ سے کسی معاوضہ کی تمنا نہیں رکھتے، ہمارا اَجر تو اللہ ربّ العالمین کے ذمے ہے۔ پس اگر نبی اپنے رشتہ داروں کاوارث ہوتا تو یہ اعتراض خارج از مکان نہ تھا کہ اس نے اپنی اُمت سے مال لیا ہے اسی طرح اگر نبی کا ترکہ اِس کےورثا پر تقسیم ہوتا تو دشمنانِ نبوت یہ اعتراض کرسکتے تھے کہ نبوت کی آڑ میں اپنے وارثوں کے لیے دولت اکٹھی کرگیا ہے۔ لہٰذا ان دونوں اعتراضوں کی
[1] الشعراء :109 [2] الشوریٰ:23 [3] قبائل قریش او رنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان رشتہ داری کا تعلق تھا۔ آیت کا مطلب بالکل واضح ہے کہ وعظ و نصیحت اورتبلیغ و دعوت کی کوئی اُجرت تم سے نہیں مانگتا،البتہ ایک چیز کا سوال ضرور ہے کہ میری دعوت کو نہیں مانتے تو نہ مانو تمہاری مرضی لیکن مجھے نقصان پہنچانے سے تو باز رہو او رمیرے راستے کا روڑہ تو نہ بنو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کے معنی کیے ہیں کہ میرے اور تمہارے درمیان جو قرابتداری ہے، اس کو قائم رکھو۔ (صحیح بخاری تفسیر سورۃ الشوریٰ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل سے محبت او راُن کی تعظیم و تکریم جزوِ ایمان ہے ۔ لیکن اس آیت کا کوئی تعلق اس موضوع سے نہیں جیسا کہ شیعہ حضرات کھینچا تانی کرکے اس آیت کو آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے جوڑتے ہیں او رپھر آل کو بھی اُنہوں نےمحدود کردیا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حسنین رضی اللہ عنہ تک ۔ نیز محبت کامفہوم بھی ان کے نزدیک یہ ہے کہ اُنہیں معصوم اور الٰہی اختیارات سے متصف مانا جائے۔ علاوہ ازیں کفارِ مکہ سے اپنے گھرانے کی محبت کاسوال بطورِ اُجرتِ تبلیغ نہایت عجیب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ ارفع سے بہت ہی فروتر ہے۔ پھر یہ آیت اور سورت مکی ہیں جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ او رحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درمیان ابھی عقدِ زواج بھی قائم نہیں ہوا تھا یعنی ابھی وہ گھرانہ ہی معرض وجود میں نہیں آیاتھا جس کی خود ساختہ محبت کا اثبات اس آیت سے کیا جاتا ہے۔ (تفسیراحسن البیان: ص636)