کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 50
انسان کے پاس جو کچھ ثروت و دولت، مال اور زندگی کا دوسرا ساز و سامان ہے۔ اس کا حقیقی مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، جو خالق کائنات ہے۔ انسان کے پاس یہ مال و متاع محض چند روز کے لیےبطورِ امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و احسان سے رفع حاجات اور روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ چیزیں مستعار عطا فرما رکھی ہیں جن پر ہمارا کوئی ذاتی استحقاق نہیں۔ لہٰذا اگرانسان کی مو ت کے بعد اس کا یہ چھوڑا ہوا مال غیر ورثا میں تقسیم کروا دیا جاتا تو بھی ظلم نہ ہوتا۔ جب انسان خود اس مال کا حقیقی مالک نہیں تو اس کے اقارب کیسے مستحق ہوسکتے ہیں؟ مگر بقولِ حکیم الاسلام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، انسان اپنی جبلت او رکم نظری کی وجہ سے اس مستعار مال کو اپنی ملک سمجھنے لگتا ہے اور موت کے وقت اس مال کو چھوڑنے پر رنجیدہ اور غمگین ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ کریم نے اپنے لطف و کرم اور شفقت ورأفت سے اس کے ترکہ کا وارث اس کے اَقارب کو مقرر فرما دیا تاکہ انسان یہ جان کر مطمئن ہو جائےکہ میری یہ دولت و ثروت اگرچہ میرے ہاتھ سے نکل رہی ہے مگر پھر بھی میرے ہی اقارب کومل رہی ہے۔ انبیاعلیہم السلام کی حقیقت آگاہ نظر پر غفلت کا پردہ نہیں ہوتا۔ ہر چیز کا دنیا میں مستعار ہونا اور مالک و متصرف حقیقی صرف ذاتِ باری تعالیٰ کا ہونا ہر وقت ان کے ذہن میں ہوتا ہے ۔ جب انبیا علیہم السلام کی دوربین نگاہیں دنیا کی کسی چیز کا اپنے نفوسِ قدسیہ کو مالک اورمستحق ہی تصور نہیں کرتیں تو اُن کا ترکہ ان کے ورثا کو دلا کر اُنہیں مطمئن کرنے کی کوئی حاجت تھی اور نہ ضرورت۔ انبیاعلیہم السلام کو نہ زندگی میں یہ تمنا تھی کہ ہمارے اقارب کا ترکہ ہمیں ملے اور نہ ہی اس دارِفانی سے فوت ہوتے وقت اپنے مال کے چھوٹنے کا کچھ ملال ہوتا تھا۔ پس انبیا علیہم السلام کے لیے مذکورہ بالا طریق سے تسلی او راطمینان کی سرے سے کوئی حاجت ہی نہ تھی۔