کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 5
ہمارا رویہ وحی الٰہی کی بجائے مشاہدہ اور حقائق کی روشنی میں مرتب ہونا چاہئے۔ اُنہوں نے دین کے محدود (بلکہ سیکولر )تصور کی تعریف کرتے ہوئے یہ گوہر افشانی بھی کی کہ دین کا ٹھوس کام برصغیر میں دیوبندی اور بریلوی مکتب ِفکر کے ہاں ہی نظر آتا ہے جنہوں نے جماعتِ اسلامی کی طرح ریاستی معاملات میں رہنمائی دینے اور اُلجھنے کی بجائے’ بہشتی زیور‘ جیسے کتب لکھ کر مثالی دینی خدمت انجام دی ہے۔ایک مقرر نے مسلمانوں کے روایتی طرزِ استدلال پر تنقید کرتے ہوئے جدید رجحانات کو اپنانے کا مشورہ دیا جس پر جامعہ ہذا کے ایک طالب علم نے یہ توجیہ پیش کی کہ جدید وقدیم میں اختلاف اُجاگر کرنے اور کسی ایک کو غالب کرنے کی بجائے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ قرآن وحدیث پر کامل کاربند رہتے ہوئے جدید مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ طلبہ نے اپنے سوالات میں کئی مواقع پر مقررین کو خاموش ہونے پر مجبور کردیا۔ تقریب میں کافر ومسلم دوستی کے بے جا تصور کو اس قدر اُبھارا گیا کہ جب ورکشاپ کے آخر میں میزبان جامعہ کے مہتمم مولانا محمد راغب نعیمی کو دعاے خیر کے لئے دعوت دی گئی تو اُن کی دعا میں شامل غلبۂ اسلام کی باری تعالیٰ سے التجا ورکشاپ کے سیاق وسباق سے غیرمناسب محسوس ہوئی اور بعض مقررین اس دعا پر تردّد کا بھی شکار نظر آئے، کیونکہ ورکشاپ کا ماحول اور پیش کئے جانے والے افکار ونظریات اس نبوی دعا کے تقاضے پورے نہیں کرتے تھے۔ ’ہالیڈے اِن‘ لاہور میں مکالمہ تکفیر وخروج 22/نومبر 2011ءکو ہالیڈے ان میں ہونےوالا اجلاس مقررہ وقت سے نصف گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا۔مکالمہ کے مدعوشرکا کے علاوہ دیگر اہل علم کو اس پروگرام میں شرکت کی اجازت نہ تھی۔ اتفاق سے جامعہ لاہور اسلامیہ کے دو فاضل اساتذہ شرکت کے لئے آن پہنچے لیکن راقم کی تحریری درخواست کے باوجود، میزبان جناب عمار ناصر نے اُن کو منتظمین کی طرف سے اجازت نہ ملنے کا کہہ کر معذرت کرلی۔مولانا عبد الرحمٰن مکی اور ڈاکٹرخالد ظہیر کسی وجہ سے تشریف نہ لاسکے۔ ڈاکٹر محمد امین کے بارے میں پتہ چلا کہ اُنہوں نے میزبان این جی او سے بعض تحریری استفسارات کئے ہیں کہ اِس این جی او کی فنڈنگ کون کررہا ہے اور اس کا امریکہ سے کیا تعلق ہے؟ مزید برآں یہ کہ جس پروگرام کی میزبانی جناب عمارخاں ناصر کے سپرد ہو، اس کے اہداف ومقاصد کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کو کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے اِن شبہات کی بنا پر عدمِ شرکت کو ہی ترجیح دی۔ آغاز میں جناب عمار ناصر نے مذاکرے کے اہداف بیان کئے جس کے جواب میں ڈاکٹر سید محمد نجفی اور جناب مفتی محمد خاں قادری نے پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی عام صورتحال کے حوالے سے شرعی ضوابط اور احتیاطیں وغیرہ پیش کیں۔راقم الحروف اور مفتی منصور احمد نے میزبان کے پیش کردہ سوالات پر براہِ راست گفتگوکی جس کے نتیجے میں بعد کی تمام ترنشست کا رخ ایک اُصولی وفقہی مسئلہ سے نکل کر تکفیر وخروج کے حوالے سے پاکستان کو درپیش حالیہ حساس صورتحال کی طرف مڑ گیا۔ یوں