کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 43
عن أبي عبد الله قال إن العلماء ورثة الأنبیاء وذٰلك أن الأنبیاء لم یورثوا درهمًا ولا دینارًا وإنما ورثوا أحادیث من أحادیثهم فمن أخذ بشيء منها أخذ بحظ وافر[1]
’’حضرت جعفر صادق نے فرمایا: ہر گاہ علما انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں، اس لیےکہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت درہم و دینار کی صورت میں نہیں ہوتی۔ وہ اپنی حدیثیں وراثت میں چھوڑتے ہیں جو اُنہیں لے لیتا ہے، اُس نے پورا حصہ پالیا یعنی جو اِن احادیث کو حاصل کرلے، وہی وراثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا حامل اور وارث ہوتا ہے۔‘‘
2. علامہ ابومنصور احمد بن علی طبرسی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حسب ِذیل حدیث بلا کسی ردّ و قدح کے یوں روایت کرتے ہیں:
إني أشهد الله وکفٰى به شهیدًا أني سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یقول: «نحن معاشر الأنبیاء لا نورث ذهبًا ولا فضة ولا دارًا ولا عقارًا وإنما نورث الکتاب والحکمة والعلم والنبوة وما کان لنا من طعمة فلولي الأمر بعدنا أن یحکم فیه بحکمه» [2]
’’حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے مطالبۂ وراثتِ مالی کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکرکہتا ہوں اور اللہ کی گواہی کافی ہے۔ہر گاہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ہم انبیاء کی جماعت اپنے بعد کسی کو سونے، چاندی، گھر اور اراضی کا وارث نہیں بناتے۔ ہم صرف کتاب و حکمت، علم اورنبوت سے متعلق اُمور کاوارث بناتے ہیں، رہے ہمارے ذرائع معاش تو وہ ہمارے بعد ہونے والے خلیفہ کی سپرداری میں چلے جاتے ہیں، وہ ان میں اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔‘‘
3. حدیث (( مَا ترکنَا صَدقة)) کی صحت اتنی عالم آشکارا ہے کہ شیخ ابوریہ محمود اور سید محمد باقر موسوی خراسانی جیسے کٹر شیعہ عالم بھی اس کو صحیح تسلیم[3] کرتے ہیں۔
[1] اُصول کافی : 1/32
[2] احتجاج الطبرسی: 1 /104
[3] ایضاً: ج1/ ص104 و 105