کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 42
ربّ تعالیٰ کی قسم! ان دونوں نے رائی کے دانے برابر بھی ہماری حق تلفی نہیں کی تو پھر میں نےپوچھا کہ کیا میں ان دونوں سے دوستی رکھوں تو اُنہوں نے فرمایا: دنیا اور آخرت دونوں میں ان کی دوستی کادم بھرو۔ اگر ان کی دوستی پر تجھ سے کچھ مؤاخذہ ہوا تو اس کی ذمہ داری میری گردن پر ہے۔ اللہ مغیرہ اور تبیان کو غارت کرے، وہ آل نبی پر ظلم و ستم کے جھوٹے قصے اور داستانیں گھڑتے رہتے ہیں۔‘‘ امام زید بن زین العابدین رضی اللہ عنہ کی شہادت: فرماتے ہیں: وأیم الله لو رَجع الأمر إلىٰ لقضیتُ فیه بقضاء أبي بکر [1] ’’یعنی امام زیدشہید فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! اگر فدک کی تقسیم کا مقدمہ میری طرف لوٹ کر آتا تو میں بھی اس کا وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےفیصلہ[2] کیا تھا۔‘‘ یعنی امام کے نزدیک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ بالکل درست اور صحیح تھا۔ حدیث ِابوبکر رضی اللہ عنہ او رعلما ے شیعہ جناب محمد باقر او رجناب زید جیسے کبار ائمہ شیعہ نے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلا فصل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو صائب اور مبنی برحق فیصلہ اس لیے قرار دیا ہے کہ یہ متواتر حدیث «ومَا ترکنا صدقة» خود ان اَئمہ کرام کے علم و تحقیق کےمطابق زیربحث قضیہ میں ایسی نصِ قطعی اور برہانِ جلی ہے کہ اس کا انکار ان بزرگوں کے نزدیک مکابرہ (مدافعة الحق بعد العلم به) او رپرلے درجہ کی ہٹ دھرمی کے متراف تھا۔ او ریہ متواتر حدیث نہ صرف ان اَئمہ کرام کے علم میں تھی بلکہ یہ اہل علم کے ہاں اس قدر متداول ہے کہ اَکابر شیعی محدثین بھی اسکو اپنی صحاح او ردوسری کتب ِمعتبرہ میں روایت کرتے چلے آرہے ہیں: 1. چنانچہ چوتھی صدی کے مشہور شیعی محدث محمد بن یعقوب کلینی رازی (م329ھ) اپنی کتاب اُصولِ کافی میں بروایت ابوالبختری امام ابو عبداللہ جعفر صادق سے حسب ِذیل الفاظ میں روایت کرتے ہیں:
[1] شرح نہج البلاغۃ لابن ابی الحدید: 4/113 [2] یہ فیصلہ السنن الکبریٰ از بیہقی 2/302 باب بیان مصرف أربعة أخماس الفيء میں بھی موجود ہے۔