کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 41
اِن احادیث کا ماحصل 1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آلِ کریم او رقرابت داروں کا جو حق مالِ خمس او رمال فے میں تھا، وہ ان کو کماحقہ باقاعدہ ملتا رہا۔ تاہم ان اموال کی ملکیت بطورِ وراثت ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی بنا پر منتقل نہ ہوئی ۔ 2. اس حصہ کے متولی اور متصرف خود حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ ان کے بعد اس حصہ کی نگرانی ان کی پشتوں میں منتقل ہوتی رہی۔ 3. آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم او ربنوہاشم کی حق تلفی کی داستانیں بالکل خانہ ساز اور جعلی ہیں۔ فیصلہ صدیقی رضی اللہ عنہ کے حق میں شیعی شہادتیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا آلِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں یہ فیصلہ اس قد رحق اور صواب تھا کہ سنی عُلما کی شہادتیں تو درکنار خود شیعہ اہل علم اپنے ائمہ اہل بیت کے حوالہ سے اس فیصلہ کو مبنی برحق و صواب تسلیم کرتے چلے آرہے ہیں، جیسا کہ شیعہ علما لکھتے ہیں: امام باقر کی شہادت: علامہ ابو حامد عبدالحمید المعروف ابن ابی الحدید شیعی (متوفی 656ھ) بہ اسنادِ جناب محمد باقر (امام پنجم شیعہ ) سے روایت کرتے ہیں: عن کثیر النواء قال قلت لأبي جعفر محمد بن علي جعلني الله فداك أرأیت أبابکر وعمر هل ظلماکم من حقکم شیئًا أو قال ذهبَا من حقکم بشيء فقال: لا والذي أنزل القرآن علىٰ عبده لیکون للعالمین نذیرًا، ما ظلمنا من حقنا مثقال حبة من خردل. قلت جعلت فداك، أفأتولاهما قال نعم: ویحك تولاهما في الدنیا والآخرة وما أصابك ففي عنقي، ثم قال: فعل الله بالمغيرة وتبيان، فإنهما كذبا علينا أهل البيت[1] ’’کثیر النوا کہتے ہیں ، میں نے جناب محمد باقرسے پوچھا کہ کیا ابوبکررضی اللہ عنہ اور عمررضی اللہ عنہ نے تمہاری کوئی حق تلفی کی ہے تو اُنہوں نےمیرے جواب میں فرمایا: قرآن نازل کرنے والے
[1] شرح نہج البلاغۃ لابن ابی الحدید: 4/113، الفصل الاول بحث فدک ؛ و رحماء بينهم: 1/ 102