کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 40
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضرت خلیفۃ الرسول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی اس ترجیح پر اس طرح عمل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضع کردہ دستور کے مطابق مالِ خمس وغیرہ کی آمدنی کا وہ حصہ جو آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتا تھا اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں دے دیا اورپھر خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اسی دستورپر عمل کیا اورنہ صرف حضرت خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اسی دستور پرعمل رہا بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کی اولاد پشتوں تک اس کی متولی اور نگران بنتی چلی گئی جیسا کہ صحیح بخاری میں اوس بن حدثان کی طویل حدیث کے آخر میں ہے:
فکانت هذه الصدقة بید علي منعها علي عباسا فغلبه علیها ثم کان بید حسن بن علي ثم بید حسین بن علي ثم بید علي بن حسین وحسن بن حسن کلاهما کانا یتداولانها ثم بید زید بن حسن وهی صدقة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم حقًا [1]
’’مدینہ کے اَموال بنی نضیر وغیرہ میں ہاشم و آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ جناب علی رضی اللہ عنہ کے دست ِتصرف میں تھا۔ اختلافِ رائے کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اس مال کی نگرانی سے روک دیا۔ پھر یہ مال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی تولیت میں تھا پھر حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا بعد ازاں حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ اورحسن بن حسن کی تولیت میں تھا وہ دونوں باری باری اس کے نگران ہوتےتھے پھر ان دونوں کے بعد زید بن حسن کے ہاتھ میں تھا۔ یقیناً یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ تھا۔‘‘
ان احادیث ِصحیحہ سے یہ حقیقت ِواقعیہ اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ادوارِ خلافت میں بنو ہاشم او رآلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مالِ خمس وغیرہ سے ان کا حصہ پورا پورا ملتا تھا، اُن کا حق کسی نے دبایا اور نہ غصب کیا۔ضائع کیا اورنہ خورد برد کیا ۔
[1] صحیح بخاری :2/576