کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 4
ہیں اوران میں سے بعض کو انتہاپسندانہ نظریات کا بھی حامل سمجھا جاتا ہے۔ مناسب ہوتا کہ آپ اسی سٹیج پر متوازن فکر لوگوں کو بھی دعوت دیتے۔ راٹھور صاحب کا جواب تھا کہ ان موضوعات کے بارے میں دیگر لوگ ماہرانہ گفتگو نہیں کرسکتے اور یوں بھی طلبہ کو سوال وجواب میں دوسرا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ راقم نے اس کے جواب میں لاہور کے کئی ایک مستند دانشوروں کا نام لیا اور کہا کہ دو تین منٹ کے سوال میں ایک طالب علم دوسرا پہلو پیش کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ بہرطورمیرے اس اختلاف کو نوٹ کرنے اور اعلیٰ انتظامیہ تک پہنچانے کی یقین دہانی کراکے، راٹھور صاحب نے مقررین میں تبدیلی سے اظہارِ معذرت کرلیا۔ راقم نے بادلِ نخواستہ 21/ نومبر کو جامعہ لاہور کے 10 کی بجائے صرف 4 طلبہ اور اپنی جگہ جامعہ کے اُستاد مولانا عبد الحنان کیلانی کو بھیجا اور سب کو متوجہ ہوکر سننے کی تلقین کی ۔طلبہ کی واپسی پر مجھے بتایا گیا کہ جامعہ ہذا کے طلبہ نے منتظمین اور مقررین سے کئی تیکھے سوالات کئے ، جن میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ قاضی جاوید صاحب کے بقول اگر امریکہ میں فوکویاما کے نظریۂ امن کے بالمقابل ہنٹگٹن کے تہذیبی کشمکش کے نظریہ کو قبولیت حاصل ہوئی ہے تاکہ امریکہ کی جنگی صنعت کا کاروبار اور عسکری ادارے زوال کا شکار نہ ہوں توپھر اس مجلس کی میزبان امن کی داعی این جی او’انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز ‘ بذاتِ خود ایک عسکریت پسند امریکہ کی نمائندگی کیوں کر کررہی ہے؟ اس کا جواب یوں دیا گیا کہ ہم امریکہ کے عسکری نظریہ کے علم بردار اور نمائندہ نہیں بلکہ امریکی شہر نیویارک میں جاری وال سٹریٹ تحریک کے امن پسندوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اُٹھنے والوں کے حامی ہیں۔اس پر اُنہیں پھر اعتراض کیا گیا کہ اوّل تو آپ کی قائم کردہ این جی او کم وبیش پانچ چھ سال سے مصروفِ کار ہے، جب کہ امریکہ میں تو وال سٹریٹ تحریک ایک دو سال قبل شروع ہوئی ہے، مزید برآں دینی مدارس اور مذہبی قیادت کو مخاطب بنانے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اِن کی مزعومہ ’اصلاحِ‘ کو پیش نظر رکھ کر آپ دراصل عالمی استعماری ایجنڈا ہی پورا کررہے ہیں۔ مقرر کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ڈاکٹر خالد ظہیر نے ’مسلم دنیا کے جدید فکری رجحانات‘کے عنوان سے اپنے خطاب کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ عین ممکن ہے کہ ہم بہترین مسلمان ہوتے ہوئے مغربی تہذیب پر بھی کاربند ہوں، کیونکہ دونوں میں اُصولی طورپر کوئی ایسا تضاد نہیں ہے کہ ایک پر عمل دوسرے کے ترک کو لازم ہو۔ جدید مسلم رجحانات پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر موصوف نے امریکہ کے ڈاکٹر حمزہ، انڈیا کے راشد شاز اور وحید الدین خاں جیسے مفکرین کےنظریات کے تعارف پر اکتفا کیا ، حالانکہ وہ اس میں محمد بن عبد الوہاب، سید قطب، مولانا مودودی اور جمال الدین افغانی کے مثبت فکری رجحانات کو بھی نمایاں کرسکتے تھے۔ ڈاکٹر شفقت نے علما کے طرزِ فکر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ آفات ومصائب مثلاً زلزلہ وسیلاب وغیرہ کی علمی وسائنسی توجیہ کرنے کی بجائے اسے عذابِ الٰہی قرار دے کر ، لوگوں کو اللہ سے رجوع کی تلقین کرتے ہیں، جبکہ