کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 39
صلہ رحمی مجھے اپنے قرابت داروں کی صلہ رحمی سے کہیں زیادہ محبوب ہے۔‘‘
8. اس ترجیح پر مکمل عمل کا ثبوت یہ حدیث ہے:
عن عبدالرحمان بن أبي لیلى قال سمعت علیًّا یقول اجتمعت أنا والعباس وفاطمة و زید بن حارثة عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقلت: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! إن رأیت إن تولّینی حقنا من هٰذا الخمس في کتاب الله عزوجل فاقسمه حیاتك کیلا ینازعنی أحد بعدك فافعل قال: ففعل ذلك قال: فقسمته حیاة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ثم ولانیه أبوبکر حتی إذا کانت آخر سنة من سني عمر فإنه أتاه مال کثیر فعزل حقنا ثم أرسل إلي فقلت بنا عنه العام غنًا وبالمسلمین إلیه حاجة فاردده علیهم فردّه علیهم [1]
’’عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ میں نےعباس، فاطمہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ ہم قرابتِ داران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاجو حصہ مالِ خمس میں بنتا ہے، اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس کی تقسیم کی ذمہ داری اپنی زندگی میں مجھے سونپ دیں تو بہتر ہوگا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص ہمارے ساتھ اس معاملہ میں جھگڑا نہ کرسکے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کام کامتولی بنا دیا۔ آپ کے عہد میں ،میں اس خمس کے حصہ کو (بنوہاشم میں) تقسیم کرتا رہا۔ بعد ازاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس عہدہ پر قائم رکھا حتیٰ کہ جب فاروقی خلافت کے آخری سال ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بہت سا مالِ غنیمت آیا۔ پس اُنہوں نے ہمارا حق خمس علیحدہ کرکے میرے پاس بھیجا (اور فرمایا کہ حسبِ سابق اس مال کی تقسیم کردو) تو میں نے جواب میں کہا کہ اے امیرالمؤمنین! ہم لوگوں (بنوہاشم) کی اب معاشی حالت مستحکم ہے، دوسرے لوگ محتاج اور ضرورت مند ہیں۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (ہمارا یہ حصہ)محتاج مسلمانوں کے لیے بیت المال میں جمع کردیا۔‘‘
[1] سنن أبي داؤد، کتاب الخراج: باب مواضع قسم الخمس وسهم ذي القربٰى:2 /60