کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 38
ہوتا اور نہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے اس غلط جواب پرسکوت اختیار فرماتیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مطلب صرف یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں وراثت ِ مالی جاری نہیں ہوتی لہٰذا بطورِ میراثِ مالی آپ کا ترکہ اہل بیت کو منتقل نہیں ہو سکتا۔ رہی کفالت تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستور کے مطابق حسب ِسابق بحیثیت خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میری اَوّلین ترجیح اور اہم ترین ذمہ داری ہے جیسا کہ پہلی حدیث (روایتِ عائشہ رضی اللہ عنہا ) میں ہے: إنما یأکل آل محمد من هذا المال قال أبوبکر: لا أدع أمرًا رأیت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یصنعه إلاصنعتُه [1] اس عبارت میں یہ اوّلین ترجیح او راہم ترین ذمہ داری صاف اور صریح الفاظ میں موجود ہے۔ مزید احادیث پڑھیے: 7. عن عروة عن عائشة أن فاطمة والعباس أتیا أبابکر یلتمسان میراثهما أرضه من فدك وسهمه من خیبر فقال أبوبکر سمعتُ النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول: «لا نورث ما ترکنا صدقة» إنما یأکل آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم في هذا المال والله لقرابة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أحب إلي أن أصل من قرابتی[2] ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا او رعباس رضی اللہ عنہ (دادا ،پوتی) نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بطورِ میراث فدک کی اراضی کی آمدنی اور خیبر کے خمس (دونوں میں اپنے مالی حقوق) کامطالبہ کیا۔ (جواب میں)ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےسنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ہم انبیا کی وراثت (مالی)جاری نہیں ہوتی۔جو کچھ چھوڑ کر ہم رخصت ہوتے ہیں، وہ(اللہ کی راہ میں وقف اور)صدقہ ہوتاہے۔ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آلِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل مالی کفالت کےبارے میں فرمایا کہ مذکورہ بالا اَموال میں سے آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً کھاتی پیتی رہے گی۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کے ساتھ
[1] صحیح بخاری :2/995 [2] صحیح بخاری : 2/576