کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 37
فرماتے رہے اور اس شخص پر خرچ کرتارہوں گا جس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فرماتےرہے۔‘‘
اِعتراض: ما ترکنا صدقةٌ کی تاویل کرتے ہوئے کہاجاتا ہے کہ یہ دراصل لایورث ما ترکنا صدقةً ہے جس میں صدقةًمنصوب ہے جو ترکیب جملہ میں حال واقع ہوا ہے۔ والتقدیر لا یورث الذي ترکناه حال کونه صدقةً ’’ہمارے ترکہ میں قانون وراثت جاری نہیں ہوا، درآنحالے کہ وہ صدقہ ہو۔‘‘
جواب: یہ تاویل باطل ہے کیونکہ سلف اور خلف محدثین نے تسلسل وتوارد کے ساتھ صدقةٌ کو مرفوع روایت کیاہے۔ یعنی ما ترکنامحل رفع میں مبتد اور صدقةٌاس کی خبر ہے لہٰذا صدقةٌکو صدقةً منصوب پڑھنا باطل ہے، جیسا کہ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ تصریح فرماتے ہیں:
لا نورث بالنون وهو الذی توارد علیه أهل الحدیث في القدیم والحدیث کما قال الحافظ في الفتح وما ترکنا موضع الرفع بالإبتداء و صدقةٌ خبره [1]
مزید برآں حدیث نمبر5 (روایت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )کے الفاظ «ما ترکت بعد نفقة نسائي ومؤنة عاملي فهو صدقة» اور اسی حدیث میں «لا تقتسم ورثتي» اور حدیث نمبر6 میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ «أن النبی لا یورث» کے الفاظ اس تاویل کے غلط ہونے پر شاہد ِعدل ہیں۔ نیز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے موقف کے خلاف ان الفاظ «ما ترکنا صدقةٌ»کو بطورِ دلیل پیش فرمانا او رپھر حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا خاموش ہوجانا بھی اس تاویل کے بطلان پر قوی برہان ہے۔ حالانکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا دونوں أفصح الفصحاء وأعلمهم بدلالة الألفاظ تھے۔ یعنی وہ دونوں لغت ِعربی کے ماہر اور عربی الفاظ کے معانی اور ان کی نزاکتوں کے شناور تھے۔ اگرحدیث ما ترکنا صدقة کی عبارت اس طرح ہوتی جس طرح معترض کا کہنا ہے تو پھر حضرت ابوبکر کا اس سے دلیل پکڑنا صحیح نہ ہوتا اور نہ اُن کا یہ جواب سوال کےمطابق
[1] نیل الاوطار: 6/77