کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 34
فقہ و اِجتہاد شیخ الحدیث مفتی عبید اللہ عفیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں وراثت کا مسئلہ؟ اہل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نفقہ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رضا مندی، وراثت جاری نہ ہونے کی حکمتیں اَحادیث ِکثیرہ، مشہورہ،صحیحہ، مرفوعہ کے مطابق اہل السنۃ والجماعہ کامتفق علیہ عقیدہ ہےکہ انبیاء علیہم السلام نہ کسی کے وارث ہوتے ہیں اور نہ کوئی ان کاوارث ہوتا ہے۔ چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیے: 1. عن عائشة رضی الله عنها أن فاطمة والعباس أتیا أبابکر یلتمسان میراثهما من رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وهما یومئذ یطلبان أرضیهما من فدك وسهمه من خیبر فقال لهما أبوبکر سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یقول: «لا نورث ما ترکنا صدقة، إنما یأکل آل محمد من هذا المال» قال أبوبکر: والله لا أدع أمرا رأیت رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصنعه إلا صنعتُه. قال: فهجرته فاطمة فلم تكلمه في ذلك حتي ماتت[1] ’’اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا او رحضرت عباس رضی اللہ عنہ دونوں(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ مانگتے تھے۔ یعنی جو زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فدک میں تھی او رجو حصہ خیبر کی اَراضی میں تھا، وہ طلب کررہے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ البتہ بات یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اس مال سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے
[1] صحیح البخاري، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم لا نورث ما ترکنا صدقة:2/995، صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب حکم الفيء :2 /92،93، نیل الأوطار: 2/76