کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 32
اورجہمیہ کہتے ہیں کہ ایمان معرفت ہیں۔‘‘ 7. امام سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں: خالفنا المرجئة في ثلاث. نحن نقول الإیمان قول وعمل وهم یقولون: الإیمان قول بلاعمل، ونحن نقول: یزید وینقص وهم یقولون: لا یزید ولا ینقص، ونحن نقول:نحن مؤمنون بالإقرار وهم یقولون: نحن مؤمنون عند الله [1] ’’مرجئہ نے تین چیزوں میں ہماری مخالفت کی ہے، ہم کہتے ہیں کہ ایمان قول و عمل ہے جبکہ مرجئہ کہتے ہیں کہ ایمان قول ہے عمل کے بغیر، او رہم کہتے ہیں کہ ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے جبکہ وہ کہتے ہیں کہ ایمان نہ کم ہوتا ہے او رنہ زیادہ، اور ہم کہتے ہیں کہ ہم اقرار کے ساتھ مؤمن ہیں جبکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے ہاں مؤمن ہیں۔‘‘ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سلف کے نزدیک عمل ایمان کا جز اور اس میں شامل ہے، لیکن مرجئہ کے نزدیک عمل ایمان کا جز اور اس میں شامل نہیں ہے۔ سلف کے نزدیک ایمان کم اور زیادہ ہوتا ہے جبکہ مرجئہ کے نزدیک ایمان کم اور زیادہ نہیں ہوتا۔اہل السنہ والجماعہ اورمرجئہ کے درمیان پائے جانے والے اس اختلاف کو بڑے واضح الفاظ میں شیخ البانی بیان فرماتے ہیں: الخلاف جذري بین أهل السنة حقًا و بین المرجئة حقًا من ناحیتین اثنتین: أن أهل السنة یعتقدون أن الأعمال الصالحة من الإیمان وأما المرجئة فلا یعتقدون ذلك ویصرحون بأن الإیمان هو إقرار باللسان وتصدیق بالجنان وهو القلب، أما الأعمال الصالحة فلیست من الإیمان وبذلك یردون نصوصًا کثیرة لا حاجة بنا إلىٰ ذکر شيء منها علىٰ الأقل إلا إذا اضطرنا. هٰذا هي النقطة الأولىٰ التی یخالف المرجئة فیها أهل السنة حقًا، النقطة الثانیة وهي تتفرع من النقطة الأولىٰ وهی: أن أهل السنة یقولون:الإیمان یزید وینقص، زیادته بالطاعة، ونقصانه بالمعصیة،
[1] شرح السنۃ از بغوی:1/80، حلیۃ الاولیاء:7/29