کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 30
مؤخر کرتے تھے۔رہا دوسرے معنیٰ کے اعتبار سے (اس فرقہ کی وجہ تسمیہ) تو یہ بھی ظاہر ہے کیونکہ یہ لوگ (خصوصاً جہمیہ) کہتے تھے کہ ایمان کے ساتھ کوئی معصیت نقصان نہیں پہنچاتی جیسا کہ کفر کے ساتھ کوئی نیکی مفید نہیں۔‘‘
2. حافظ ابن حجر عسقلانی راقم ہیں:
والمرجئة نُسبوا إلىٰ الأرجاء وهو التاخیر لأنهم أخَّروا الأعمال عن الإیمان فقالوا: الإیمان هو التصدیق بالقلب فقط، ولم یشترط جمهورهم النطق، وجعلوا للعصاة اسم الإیمان علىٰ الکمال وقالوا: لا یضر مع الإیمان ذنب أصلًا[1]
’’إرجاء(کے معنی) مؤخر کرنا ہے اور مرجئہ کی نسبت ’اِرجا‘ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ یہ لوگ اعمال کو ایمان سے مؤخر کرتے ہیں (یعنی اعمال کو ایمان کا جز قرار نہیں دیتے) اُنہوں نے کہا کہ ایمان صرف دل سے تصدیق (کا نام) ہے او ران کے جمہور نے تو (ایمان کے لیے) زبان سے اقرار کو بھی شرط قرار نہیں دیا اور اُنہوں نے گنہگاروں کو مؤمن کامل قرار دیا ہے اور یہ (خصوصاً جہمیہ) کہتے ہیں کہ ایمان کی موجودگی میں گناہ نقصان نہیں پہنچاتا۔‘‘
3. امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
سئل أبي عن الإرجاء فقال: إیمان قول وعمل ویزید و ینقص إذا زنى و شرب الخمر نقص إیمانُه [2]
’’میرے باپ(امام احمد) سے إرجاء کے بارے میں سوال کیا گیا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ایمان قول و عمل ہے اور کم و زیادہ ہوتا ہے جب (کوئی مؤمن) زنا کرے، شراب پی لے تو اس کا ایمان کم ہوجاتا ہے۔‘‘
4. ابو وائل رحمۃ اللہ علیہ كے بارے میں زبیدفرماتے ہیں:
سألتُ أبا وائل عن المرجئة میں نے ابووائل سے مُرجئہ کے بارے میں
[1] فتح الباری:1/147
[2] السنۃ از ابن احمد : 81، دوسرا نسخہ :1/307، شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ:2/59