کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 3
کے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، جماعۃ الدعوۃ کے مولانا عبد الرحمٰن مکی، جامعہ لاہور اسلامیہ سے ڈاکٹر حافظ حسن مدنی(راقم)، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی سے ڈاکٹر محمد امین، یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب سے ڈاکٹر خالد ظہیر اور ڈاکٹر سید محمد نجفی وغیرہ حضرات کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ دو نشستوں پر مشتمل اس مذاکرہ کی میزبانی مجلّہ ’الشریعہ‘ کے مدیر جناب عمار خاں ناصر کے ذمّے تھی۔ اسی مباحثے کا تیسرا مرحلہ اسلام آباد کے مارگلہ ہوٹل میں 20/ دسمبر کو منعقد ہوا ہے جس میں راقم الحروف سمیت دیگر دانش گاہوں کے نمائندگان کو تحریری مقالہ پڑھنے کی دعوت دی گئی ۔
جامعہ نعیمیہ میں دینی مدارس کے طلبہ کی ورکشاپ
لاہور کے مذاکرۂ تکفیر وخروج میں کیا ہوا، اس کی مرکزی بحث کیا تھی اور اس کا حاصل کیا نکلا؟ اس سے قبل یہ نشاندہی کرنا مناسب ہے کہ ’انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز‘ کی پوری ٹیم لاہور کے دونوں پروگراموں میں پوری دلجمعی کے ساتھ شریک تھی، اُنہوں نے ایک روز قبل جامعہ نعیمیہ میں طلبہ کو اپنے مرغوب موضوعات پر دو نشستوں میں بھی’رہنمائی‘ دی اور دوسرے دن علما اور دانشور حضرات کے مابین ایک حساس مسئلہ پر ہونے والے پورے مباحثہ کے نوٹس لئے، ہر مقرر کی گفتگو اور اُس کا استدلال اُنہوں نے پوری توجہ سے پچھلی نشستوں پر بیٹھ کر سنا۔جامعہ نعیمیہ میںPIPS کے زیر اہتمام’جدید فکری رجحانات اور بین الاقوامی قانون کی اہمیت‘ کے عنوان ہونے والی ورکشاپ کی رپورٹ روزنامہ ’نوائے وقت‘ لاہور میں شائع ہوئی کہ
’’اسلام سے غیرمتصادم جدید مغربی سیاسی نظریات اور دانشورانہ رجحانات کو پاکستان کی سیاسی اور ریاستی نظام کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر خالد ظہیر نے روایت پسندی، جدیدیت اور اجتہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ روایت پسندی نئے علوم وجدید رجحانات کی کھوج میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔...‘‘
(22 نومبر2011ء)
جامعہ نعیمیہ میں ہونے والی طلبہ ورکشاپ میں جامعہ لاہور اسلامیہ کے آخری کلاس کے 10 طلبہ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور اس کے لئے بار بار رابطہ کیا جاتا رہا۔ اس ورکشاپ میں ڈاکٹر خالد ظہیر(جاوید احمد غامدی کے تلمیذ ِخاص)، ہیومن رائٹس کمیشن کے آئی اے رحمٰن(عاصمہ جہانگیر کے معاونِ کار)، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کے ڈائریکٹرقاضی جاوید، ڈاکٹر سعید شفقت اور دیگر ایسے ہی خیالات رکھنے والے افراد کو ’مسلم دنیا میں جدید فکری رجحانات، انسانی حقوق کا میثاق اورعالمی معاہدوں کی اہمیت ‘ وغیرہ جیسے حساس ملی موضوعات پر خطابات کرنا تھے۔ راقم نے جامعہ ہذا کے ’کلیہ دراساتِ اسلامیہ‘ کے ڈائریکٹر ہونے کے ناطے انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے معاون کار جناب مجتبیٰ راٹھور سے ورکشاپ کے مقررین کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ جن لوگوں کو آپ نے ایسے اہم موضوعات پر گفتگو کرنے کی دعوت دی ہے، یہ لوگ توپاکستانی عوام میں خود ایک متنازعہ حیثیت رکھتے