کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 29
ومعرفت بھی ایسے ہی ہے او رامام محمد بن نصر مروزی نے (بھی) اپنی کتاب تعظیم قدرالصلاۃ میں ائمہ کی جماعت سے اسی کی مثل (ہی)نقل کیا ہے۔‘‘ 20.محدث العصر شیخ محمد ناصر الدین البانی بھی مسئلۂ ایمان میں سلف کے متبع اور اہل سنت کے ترجمان تھے، فرماتے ہیں: الإیمان یزید وینقص[1] ’’ایمان کم او رزیادہ ہوتا ہے۔‘‘ الغرض ائمہ فقہاومحدثین کی مذکورہ بالا تصریحات اس باب میں واضح ہیں کہ ’’اہل السنۃ والجماعہ: سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک عمل ایمان کا حصہ ہے اور ایمان میں کمی و بیشی واقع ہوتی ہے۔‘‘ إرجــاء 1. شیخ محمد بن عبدالکریم شہرستانی راقم ہیں: والإرجاء علىٰ معینین: أحدهما: التأخیر کما في قوله تعالىٰ ﴿قَالُوْا أَرْجِهْ وَأخَاهُ﴾ [2] أی أمهله. والثاني: إعطاء الرجاء... أما إطلاق اسم المرجئة على الجماعة بالمعنى الأول فصحیح لأنهم کانوا یؤخرون العمل عن النیة والإعتقاد. وأما بالمعنی الثاني فظاهر، فإنهم کانوا یقولون: لا یضرمع الإیمان معصیة، کما لا ینفع مع الکفر طاعة [3] ’’إرجاء کے دو معنی ہیں:پہلے معنی ہیں تاخیر (مؤخر کرنے) کے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قَالُوْا أَرْجِهْ وَأخَاهُ﴾ [4]یعنی فرعون کے درباریوں نے کہا: موسیٰ اور اس کے بھائی کو مہلت دے اور ان کے معاملہ کو ملتوی کر۔‘‘ یہاں إرجاء کے معنی ہیں’أمهله‘اسے مہلت دے اور ’أخره‘اسے مؤخر کر۔ (إرجاء کے) دوسرے معنی ہیں:’’اُمید دلانا‘‘...رہا اس فرقہ پر ’المرجئہ‘ کے نام کا اطلاق تو پہلے معنیٰ کے لحاظ سے یہ صحیح ہے کیونکہ یہ لوگ عمل کو نیت او راعتقاد سے
[1] السلسلۃ الصحیحۃاز البانی :4/369، موسوعۃ الالبانی:4/99 [2] الشعراء :36 [3] الملل والنحل از شہر ستانی :1/ 186 [4] سورۃ الاعراف:111