کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 28
’’(ایمان میں زیادتی) کے ثبوت کے بعداس کے مدمقابل (یعنی ایمان کا کم ہونا) بھی ثابت ہوجاتا ہے۔ بلا شبہ ہر زیادتی کوقبول کرنے والی چیز لامحالہ کمی کو بھی قبول کرنے والی ہے۔‘‘ 18. امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں عقبہ بن علقمہ فرماتے ہیں: سألت الأوزاعي عن الإیمان أیزید؟ قال: نعم حتی یکون کالجبال، قلت فینقص؟ قال: نعم حتی لا یبقی منه شيء [1] ’’میں نے امام اوزاعی سے سوال کیا کہ کیا ایمان زیادہ ہوتا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں، حتیٰ کہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔ میں نے کہا کہ کیا ایمان کم ہوتا ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں، حتیٰ کہ (کم ہوتے ہوتے بالآخر) کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔‘‘ 19. شیخ محی الدین کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی راقم ہیں: قال الشیخ:والأظهر المختار أن التصدیق یزید وینقص بکثرة النظر ووضوح الأدلة ولهٰذا إیمان الصدیق أقوٰی من إیمان غیره بحیث لا یعتریه الشبهة ویؤیده أن کل أحد یعلم أن ما في قلبه یتفاضل حتی أنه یکون في بعض الاحیان أعظم یقینًا وإخلاصًا وتوکلًا منه في بعضها وکذلك في التصدیق والمعرفة بحسب ظهور البراهین وکثرتها، وقد نقل محمدبن نصرالمروزی في کتابه تعظیم قدرالصلاة عن جماعة من الأئمة نحوذلك [2] شیخ (محی الدین) فرماتے ہیں: ’’ظاہر و مختار یہی ہے کہ کثرتِ غوروفکر او ردلائل کے واضح ہونے کے سبب سے تصدیق میں کمی و بیشی ہوتی ہے۔ اسی لیے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ایمان سب سے زیادہ مضبوط تھا اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ہر ایک جانتا ہے کہ بلا شبہ اس کے دل میں جو (ایمان) ہے، وہ زیادہ ہوتا رہتا ہے حتیٰ کہ بعض اوقات یقین و اخلاص اور توکل میں بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے بنسبت دوسرے اوقات کے۔ اور دلائل کے ظہور و کثرت کے حساب سے تصدیق
[1] شرح اُصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ:2/57 [2] فتح الباری:1/64