کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 21
کو طرح طرح کے القاب و اِلزامات سے نوازنے کے علاوہ شیخ البانی اور ان کے اصحاب کو مرجئہ وجہمیہ کے طعنے بھی دیے جا رہے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں اسی بات کو اقوالِ سلف سے واضح کیا گیا ہے کہ ایمان اور اِرجا کیا ہے اور مرجئہ و جہمیہ کون ہیں؟اور اہل السنّہ والجماعہ کو خارجی و معتزلی نظریات کے حامل حضرات کی طرف سے جو مرجئہ و جہمیہ ہونے کا طعنہ دیا جا رہا ہے،وہ سراسر باطل ہے۔ اس سلسلے میں پہلے ہم ایمان کی تعریف اور اِرجاکے مفہوم سے موضوع کا آغاز کرتے ہیں: اَئمۂ اہل سنت کے نزدیک ’عمل‘ایمان کا جزہے، اور ایمان دل سے تصدیق، زبان سے اِقرار اور عمل سے مرکب ہے، اور ایمان میں کمی و بیشی بھی ہوتی ہے۔ اکثر اَئمۂ اسلاف ایمان کو ’قول و عمل‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور قول سے ان کی مراد ہے: قولِ قلب یعنی دل سے تصدیق اور قولِ لسان یعنی زبان سے اِقرار ... اسی طرح عمل کی بھی دو قسمیں ہیں: عمل ِقلب اور عملِ جوارح [1] اہل السنہ والجماعہ کے ہاں ’ایمان کیا ہے؟‘ 1. عقیدہ طحاویہ کے مشہور شارح امام ابن ابی العز حنفی رحمۃ اللہ علیہ راقم ہیں: ولا خلاف بین أهل السنة والجماعة أن الله تعالىٰ أراد من العباد القول والعمل وأعني بالقول: التصدیق بالقلب والإقرار باللسان وهٰذا الذي یعنی به عند اطلاق قولهم: الإیمان قول و عمل [2] ’’اہل سنت کے ہاں اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اللہ تعالیٰ بندوں سے قول و عمل کو چاہتے ہیں او رقول سے میری مراد ہے: دل سے تصدیق اور زبان سے اِقرار، اور ایمان قول و عمل پرمشتمل ہے۔‘‘ 2. شیخ الاسلام ابن تیمیہ، امام ابوعبید قاسم بن سلام کے حوالہ سے اہل مکہ، اہل کوفہ، اہل بصرہ، اہل واسط او راہل مشرق کی ایک بہت بڑی جماعت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
[1] الایمان از ابن تیمیہ:ص 137،149؛ کتاب الصلوٰۃ ازابن قیم :ص26؛ شرح العقیدہ الطحاویۃ از ابن ابی العز حنفی:ص333،341 [2] شرح العقیدۃ الطحاویۃ :ص333