کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 20
ایمان وعقائد ابو عبد اللہ طارق[1]
اہل السنّۃ اور مُرجئہ کون ہیں؟
[ائمۂ اسلاف کی فرامین کی روشنی میں]
اوائل اسلام میں جب مختلف فتنوں نے سر اُٹھایا تو ائمہ اہل السنۃ کی طرف سے ان کی بھرپور علمی تردید کی گئی۔ ان میں سے ’مسئلۂ ایمان و کفر‘ میں ایک طرف خوارج و معتزلہ تھے تو دوسری انتہا پر مرجئہ و جہمیہ جمے ہوئے تھے ۔ جبکہ اہل السنّۃان دو انتہاؤں کے وسط میں راہِ اعتدال پر قائم تھے اور آج بھی ہیں اور یہ بھی حقیقت بلا ریب ہے کہ مرجئہ و جہمیہ کی طرف سے اہل السنۃکو خارجی ہونے کا الزام دیا گیا اور خوارج و معتزلہ کی طرف سے اہل السنۃکو مرجئہ ہونے کا طعنہ دیا گیا جبکہ ائمہ اہل السنۃ نے اِفراط و تفریط پر مبنی ان افکار ونظریات اور ان کے حاملین کا ردّ کرتے ہوئے ان سے ہمیشہ برات کا اظہار کیا۔
اب ماضی قریب میں بعض عرب علاقوں میں خوارج و معتزلہ کے نظریات کے زیر اثر اور بعض مسلم حکام کے ظلم وستم کے ردّ عمل میں تکفیری افکار اور تحریکوں نے سر اُٹھایا تو علماےاہل السنّۃ نے اُن کا بھر پور تعاقب کیا ۔ جس پر اِن تکفیری حضرات کی جانب سے اپنے بڑوں کی روش پر اہل السنۃو الجماعہ اورسلفی نظریات کے حامل علما کو مرجئہ و جہمیہ کے القابات سے نوازا گیا اور ہمارے اس دور میں پاکستان میں بھی انہی نظریات کے زیر اثر یا لاعلمی کی بنا پر بعض حضرات ابو بصیر عبد المنعم طرطوسی [2] اور ابو عزیر عبد اللہ یوسف الجزائری ایسے حضرات کے انہی افکار ونظریات کو اُمت میں بیداری و اِحیا کے نام سے پیش کر رہے ہیں۔ پھر انہی افراد کی طرف سے شیخ ابن باز ، شیخ محمد بن صالح عثیمین اور شیخ صالح فوزان وغیرہ علما
[1] اُستاد جامعہ لاہور اسلامیہ (البیت العتیق ، برانچ جوہرٹاؤن)، لاہور
[2] جو بذاتِ خود طاغوتِ اعظم برطانیہ میں ’مستامن‘ کاحیلہ کرکے وہاں رہائش رکھے ہوئے ہیں۔