کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 17
مولانا زاہد الراشدی نے راقم کے اس تبصرہ پر یہ ارشاد فرمایا کہ اوّل تو قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتاب الخراج ‘اسلام میں قانون سازی کی ایک درخشندہ مثال ہے۔ نیز سیدنا ابوبکر کاانتخاب بھی جمہوریت کے حق عوام کی نشاندہی کرتا ہے۔ بعد ازاں مجھے فرمانے لگے کہ افغانستان وسعودی عرب کے حوالے سے جو بات آپ نے کہی ہے ، اس میں حالات کا فرق ہمیں ضرور ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے۔ یہاں قارئین محد ث پر یہ واضح رہنا چاہئے کہ ’کتاب الخراج‘ تو فقہی احکام ومسائل کی ایک کتاب ہے، اس میں دفعہ اور شق وار کوئی قانون نہیں ملتا جس کی پابندی ملتِ اسلامیہ پر سرکاری طورپر واجب ہو۔ پھر سیدنا ابوبکر کے انتخاب کی پوری تفصیلات کو دیکھا جائے تو وہ خالصتاً خلافتی انتخاب تھا، اس سے قبل کوئی ووٹنگ[1]نہیں ہوئی تھی ۔مولانا راشدی نے سعودی عرب وافغانستان کے بارے میں حالات کے فرق کا موقف اپنا کر میرے ہی موقف کو تقویت دی کہ اسلام کا اصل نظام خلافت ہی ہے جسے امارتِ اسلامیہ افغانستان نے اختیار کرنے کی اُصولی طورپر کوشش کی ہے اور سعودی عرب نے بھی بعض سیاسی کوتاہیوں کے باوجود اسلام کا نظامِ عدل یعنی قرآن وسنت کو براہِ راست علما قضاۃ کے ذریعے نافذ کررکھا ہے۔ اور پاکستان میں ہونے والا قانون سازی کا تجربہ دراصل حالات کا جبر ہے، اس بنا پر یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ علما نے جمہوریت کو ہی اسلام کا مثالی نظام باور کرلیا ہے۔اندریں حالات علما کی تمام دستوری جدوجہد حالات کے جبر میں ممکنہ گنجائش سے ہی عبارت ہے۔ اس بنا پر خروج وغیرہ کی بحثیں یا اہل ذمہ وغیرہ کی گفتگو ، یہ تمام چیزیں جمہوری نظام میں خلط ِمبحث ہی ٹھہرتی ہیں۔ دوسری نشست: پاکستانی سیاست کے تناظر میں خروج کا مسئلہ مکالمہ کی دوسری نشست کا موضوع خروج اور اس سے متعلقہ مباحث تھیں۔ مکالمہ کے میزبان جناب حافظ عمار ناصر نے یہ بنیادی سوال قائم کیا کہ اگر خروج وتکفیر درست حکمتِ عملی نہیں تو پھر اس کا متبادل کیا ہونا چاہئے؟ اس پر براہِ راست گفتگو کی ضرورت ہے۔ مفتی منصور احمد صاحب نے فرمایا کہ پہلی نشست کے خاتمے تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ خروج کی بحث موجودہ جمہوری تناظر میں نہیں کی جاسکتی ۔ خروج کے بارے میں سرحدی علاقوں میں ہونے والے ظلم وستم کا تذکرہ پوری شدت سے کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اس جدوجہد کو شرعی مباحثے کی بجائے ایک خالص ردعمل کے تناظر میں دیکھنا چاہئے جس طرح بلوچستان کے عوام کی جدوجہد کو دیکھا جاتا ہے۔
[1] تفصیل کے لئے دیکھیں:’’خلفاے راشدین کا تعین شورائی تھا۔‘‘محدث:جون 2009ء، ج41، عدد6