کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 16
یہود نے وعدہ خلافیاں کیں اور قرآن نے اُن کے خلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاد کا حکم دیا اور وہ مدینہ منورہ سے نکل گئے تو اُس کے بعد یہ دستاویز مؤثر نہیں رہی۔بعض دانشوروں کا خلافت ِراشد ہ اور بعد کے ادوار میں اس میثاق کو دستورِ اسلامی قرار دینے کا نظریہ سراسر حقائق سے لاعلمی ہے۔ اسلامی تاریخ میں سلطنتِ عثمانیہ کےمجلہ احکام عدلیہ کی قانونی تشکیل وہ پہلا مرحلہ ہے جب قرآن وسنت کی بجائے انسانوں کے بنائے یا تجویزکردہ قانونی الفاظ معیارِ عدل قرار پائے لیکن ڈیڑھ سو سال کی حالیہ مسلم تاریخ شاہد ہے کہ قانون سازی اور جمہوریت نوازی کے اس رجحان کے نتیجے میں کسی بھی ملک کو اسلام کی برکات نصیب نہیں ہوسکیں۔ یہی قانون سازی بعد میں پورے انسانی قانون کی بنیاد بنتی ہے، جو آخر کار طاغوت تک جا پہنچتی ہے۔ واضح رہے کہ احناف کے ہاں بھی خلیفہ کی نیابت کرتے ہوئے تعزیرات کے باب میں مباحات کے مابین کسی ایک مباح کو مستقل قانون سازی کے طورپر اختیار تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شریعت کے وہ میدان جہاں واضح اسلامی احکامات موجود ہوں، ان کو نظرانداز کرکے وہاں مستقل انسانی قانون سازی کا راستہ ہی اختیار کرلیا جائے، یہ سراسر ناجائز ہے۔
3. جہاں تک حضرت راشدی صاحب نے عوامی اعتماد کی بات کی ہے تو اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ خلافت ِاسلامیہ میں عوامی اعتماد کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے لیکن اگر عوامی اعتماد ہی انتخابِ امیر کی اساس ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت اور خلافت میں حدِ امتیاز کیا ہے؟ خلافت دراصل اللہ کے دین کے نفاذ کے لئے قائم ہوتی ہے۔ وہ مسلمان فرد جو دین الٰہی کے قیام اور دفاع کے لئے علم و عمل کے لحاظ سے اَصلح ہو، اس کو اہل حل وعقد خلیفہ بناتے ہیں، جس کی بعد میں عامۃ المسلمین بیعت کرتے ہیں۔ اس مرکزی نکتہ کے بعد میسر افراد میں جس شخص کو عوامی اعتماد بھی حاصل ہو، اُس کو بھی ایک وزن دیا جاتا ہے۔ اگر عوامی حاکمیت کا اسلام میں اتنا ہی اعتبار ہے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر واسلام کا نکھار کئے بغیر مکہ مکرمہ میں حاکمیتِ عوام قائم کیوں نہیں کردی تھی؟ بلکہ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بندگی میں چلنے والا ایک پورا معاشرہ قائم کیا، خلیفہ کے ذریعے اس کو تحفظ دیا، جزاوسزا کا نظام نافذ کیا اور اس کے بعد عوامی اعتماد کو بھی پیش نظر رکھا۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت میں تو عوامی انتخاب واعتماد ایک مرکزی قوتِ محرکہ کے طور پر موجود ہوتا ہے جبکہ خلافتِ اسلامیہ میں نفاذِ شریعت اسی مقام پر ہوتا ہے اور عوامی اعتماد انفعالی درجے میں موجود ہوتا ہے۔ انتخابِِ امیر کا فیصلہ محض عوامی اعتماد کی بنا پر نہیں کیا جاسکتا تاہم شریعت کو نافذ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے فرد میں اُس کو بھی دیکھا جاتا ہے۔