کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 15
شہادتین کے اقرار کے باوجود تکفیر ہوئی اور اُس کے بعد ہی ان سے جنگ کی گئی تھی۔ اپنے خطاب کے آخر میں اُنہوں نے اکابر کے فیصلے کا احترام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا کہ 22 نکات پر علما نے اتفاق کرکے جمہوریت اور اسلام کی راہ ہموار کی تھی، ہمیں اس سے انحراف نہیں کرنا چاہئے ، یہی ماضی ، حال اور مستقبل میں سلامتی کا راستہ ہے!!
راقم نے ا ُن کے خطاب کے بعد منتظمین سے اجازت طلب کرکے اپنی معروضات پیش کیں :
1. میں اس مجلس مذاکرہ کا شکرگزار ہوں کہ اس کے ذریعے ہمیں ایسی شخصیات سے تبادلہ خیال اور استفادہ کرنے کا موقع میسر آیا جن کی ملی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کی مساعی دینیہ اورجہودِ طیبہ کے سامنے ہماری نگاہیں ادب واحترام سے جھک جاتی ہیں، لیکن مکالمہ کا حسن ہی یہ ہے کہ متبادل نکتہ نظر کو پوری وضاحت سے پیش کیا جائے اورمیں مکالمہ کے اس حق سے ضرور فائدہ اُٹھاؤں گا۔ مولانا راشدی نے سیاسی تکفیر وخروج کی بحث میں جو استدلال پیش کیا ہے، مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ کیا میں یہ تسلیم کرلوں کہ پاکستان کے علما نے خلافت کو منسوخ قرار دے کرجمہوریت کو اس کا متبادل ہونے پر اتفاق کرلیا ہے! میں اس سے قبل اپنا موقف تفصیل سے پیش کرچکا ہوں جس میں جمہوری قانونی جدوجہد کو میں نے حالات کا جبر قرار دیتے ہوئے، اسے ایک ممکنہ سیاسی جدوجہد ہی باور کرایا ہے۔ مولانا نے اکابر کی رائے کے احترام کی بات ہے جبکہ ہمارے پڑوس میں جب علماے احناف کو جہادِ افغان کے بعد اپنے زورِ بازو سے افغانستان میں حکومت ملی تو طالبان کے حنفی اکابر نے وہاں جمہوری نظام کی بجائے’امارتِ اسلامیہ افغانستان‘ کے نام سے نظام امارت اختیار کیا۔ مجھے یہ بیان کرنے میں کوئی باک نہیں کہ اسلامی نظام کی برکات سے جس تیزی سے افغان معاشرہ مستفیض ہوا، اس کی مثال موجودہ سیاسی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ملتِ اسلامیہ کی حالیہ تاریخ میں دو ہی جگہ اسلامی نظام کی برکات سامنے آئیں: افغانستان اور سعودی عرب میں اور دونوں جگہ جمہوریت موجود نہیں تھی۔ اس لئے اکابر ملت ہوں یا فقہاے عظام، ان کا حوالہ دے کر خالص اسلامی نظام خلافت کا مقام جمہوریت کوعطا نہیں کیا جاسکتا۔یوں بھی اکابر کا حوالہ دے کر قرآن وسنت سے استدلال کے سلسلے کو ختم نہیں جاسکتا۔ جمہوریت ایک غیراسلامی نظام ہے اور اسمیں خروج کی بحث کرنا ایک کارِ لاحاصل ہے۔
2. جہاں تک پاکستان میں اسلامی قانون سازی یا جمہوریت کے حق قانون سازی کا تعلق ہے تو یہ نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے کہ تیرہ صدیوں کی اسلامی تاریخ کسی بھی قانون سازی سے محروم رہی ہے۔ مسلمانوں میں سب سے پہلے قانون سازی کا رویہ فرانس کی اتباع میں سلطنتِ عثمانیہ کے آخری ادوار میں ’مجلہ احکام عدلیہ‘ کی صورت نظر آتاہے۔ میثاقِ مدینہ جسے اسلامی دستور قرار دیا جاتا ہے، اگر کوئی مستند دستاویز ہے بھی تو وہ یہود کے مدینہ منورہ میں قیام تک ہی مؤثر رہی۔ جب