کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 14
حالات حاضرہ میں کوئی قابل عمل حل ہیں جس سے اسلام کے حق میں مثبت ودائمی اثرات مرتب ہوں ہم ان حالات میں مظلومین سے ہمدردی رکھتے ہوئے اس رویے سے برات کا اظہار کرتے ہیں۔
راقم کی اس طولانی تقریر کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے اپنے خطاب میں جو نکات اُٹھائے، بحث کا رخ اُن کی طرف مڑ گیا۔ مفتی محمد خاں قادری صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ تحریک ِطالبان پاکستان کے حوالے سے اخبارات میں جو کچھ چھپ رہا ہے، اس میں سے بہت کچھ ایسا ہے جو امریکی اور حکومتی ادارے بلاوجہ ان کے نام پر منڈھ رہے ہیں۔ اُن کے نام پر جو کچھ شائع ہوتا ہے، اس میں پوری صداقت نہیں ہوتی۔ پھر اس کے بعد اُنہوں نے تکفیر کے بہت سے اُصول وضوابط پیش کئے۔ ان کے بعد ڈاکٹر احمد نجفی نے بھی شیعہ سنّی تکفیر کے ضمن میں فقہی استدلالات اور فقہ جعفریہ کا موقف تفصیل سے پیش کیا۔ بعدازاں مفتی منصور احمد نے توحید ِحاکمیت کے بارے میں استدلال کرتے ہوئے اپنے خطاب میں سورۃ النساء کے ایک مکمل رکوع (آیات 58 تا 69)کا خلاصہ پیش کیا اور قرآن وسنت کے مطابق اپنے فیصلے نہ کرنے والوں کو قرآن کی زبان میں طاغوت اور ظالم قرار دیا۔ اس کے بعد مولانا زاہد الراشدی کا اختتامی خطاب تھا۔ مولانا زاہد الراشدی کے خطاب کا خلاصہ یہ ہے کہ
ہمارے اندر یہ علت پائی جاتی ہے کہ ہم ہر مسئلے میں شروع سے بات کا آغاز کردیتے ہیں، جبکہ یہ مسائل پہلے بھی پیش آچکے ہیں اور ہرمسئلہ میں اکابرِ ملت پہلے ایک واضح موقف اپنا چکے ہیں۔ آج ہم آغاز کے مرحلے پر نہیں کھڑے بلکہ پاکستان کے علماے اسلام نے قرار دادِ مقاصد اور جملہ مکاتبِ فکر کے 31علمانے 22 نکات پیش کئے ہیں۔1973ء کا متفقہ دستور پیش ہوکر علماے اسلام کا اتفاق حاصل کرچکا ہے۔ اس کے بعد ہمارے علما نے قانونی ودستوری جدوجہد کا راستہ پوری محنت وتدبیر کے ساتھ اختیار کررکھا ہے۔ اندریں حالات پاکستانی علما کا جمہوریت پر اتفاق ہوچکا ہے۔ اس بنا پر جمہوریت کو ہی ناقابل قبول بنادینا ، بحث کو نئے سرے سے شروع کردینے کے مترادف ہے جو وقت کا ضیاع ہے۔ چنانچہ انہی حالات میں رہتے ہوئے ہمیں خروج کے مسئلے کا شرعی حل تلاش کرنا چاہئے۔
اُنہوں نے خلافتِ راشدہ سے اپنے موقف کا استنباط کرتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ سیدنا ابوبکر صدیق کی خلافت سے اس اہم سوال کا جواب ملتا ہے کہ حکمرانی کیا جبر کی بنا پر حاصل ہوگی یا عوامی رائے کی بنا پر؟ مزید برآں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کی اساس عوام الناس کا اعتماد ہی تھا اور یہی جمہوریت ہے۔اس عوامی اعتماد کی بنا پر ہی سیدنا عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بجائے اُنہیں خلیفہ نامزد کیا۔غرض حکومت کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے۔ اُنہوں نے اپنے خطاب میں پاکستانیوں کے انتہاپسندانہ سماجی رویوں کی اصلاح کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ ہم جب تک کسی پر کفر ، غداری یا وطن دشمنی کا فتویٰ نہ لگا لیں ، ہمارے اختلاف کے تقاضے پورے ہی نہیں ہوتے۔ اُنہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ یہ دعویٰ نظرثانی کا محتاج ہے کہ خیرالقرون میں کسی کی تکفیر نہیں ہوئی، حالانکہ مانعین زکوٰۃ کی