کتاب: محدث شمارہ 353 - صفحہ 13
چلاتے آئے تھے۔مختصر طورپر پاکستان کی آزادی اپنے زورِ بازوپر حاصل ہونے والی مکمل آزادی نہ تھی، بلکہ قابض کی کمزوری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال میں ، محمد علی جناح کی پرعزم قیادت کے تحت مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ تھی۔ چنانچہ یہ آزادی حاصل کرنے والے مسلمان اور ان پر نگران عالمی استعمار نے اُنہیں یہ مہلت ہی نہ دی کہ وہ جمہوریت سے بالاتر کسی اور نظام کے متعلق آزادہوکر سوچتے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی نظریاتی غلامی اور بدترین استعماری تسلط آج تک برقرار ہے۔پاکستان کلمہ طیبہ کے نعرے کی قوت سے وجود میں آیا لیکن قیام کے چند ماہ بعد ہی خالص اسلام کی بجائےیہ وطن پھر مغربی نظریات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ان حالات میں علما نے ایک مثالی نظام کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ موجود سیاسی جبر میں ممکنہ اصلاحات کا راستہ اپنایا۔ اگر پاکستان مکمل طورپر آزاد ہوکر قائم ہوا ہوتا اور اس پر مغربی قوتوں کا تسلط نہ ہوتا تو یہاں علما یہ صورتحال کبھی اختیار نہ کرتے۔ الغرض علما کے متفقہ 22 نکات ہوں، یا دستور ی جدوجہد یا اسلام کے اجتماعی نظاموں کا جزوی نفاذ، حالات کے اس جبر میں علما کے پاس تبدیلی کا ممکنہ راستہ ہی یہ ہے نہ کہ یہ علما اور اسلام کا اصل مقصود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان قانونی تبدیلیوں کے نفاذ اورآج کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی اسلام کی برکات حاصل نہیں ہورہیں، کیونکہ یہ ایک مثالی طریقہ یا خالص اسلامی ہدف نہیں ہے بلکہ اُمت کو درپیش کمزوری کے حالات کی اضطراری حکمت ِعملی کا نتیجہ ہے ۔ تکفیر وخروج یا تشدد اور جبر مسئلہ کا حل نہیں ہیں 10. مذکورہ بالا گذارشات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ راقم کسی جبر وتشدد کا حامی ہے یا بعض تحریکیں نفاذ اسلام کے جو شارٹ کٹ طریقے اختیار کئے ہوئےہیں، ان کی تائید کرتا ہے۔ بلکہ مقصود مرض کی تشخیص میں اتفاق ہی ہے۔ تاہم اس مرض کا علاج کیا ہو، اس میں مسلمانوں میں مختلف رجحانات پائے جاتے ہیں۔ اسلام ہنگامی قبضہ کی بجاے فرد کی اصلاح وتربیت پر زور دیتا ہے اور اصل ضرورت مسلم افراد کی معیاری تیاری، اور دین پر عمل پیرا ہونے کے لئے اُنہیں تعلیم وتربیت دینا، پھر ایسے افراد پر مشتمل جمعیت ِاسلامی کا قوت پکڑنا، مختلف الجہت اسلامی تحریکوں وتنظیموں کا اتحاد واتفاق کرکے، نفاذِاسلام کے لئے ہونے والی مساعی کو تقویت دینا ہے۔ جب تک مسلم معاشرہ اصلاح وتعمیر کے ان مراحل سے نہیں گزرے گا، وقتی غلبہ یا اتفاقی قبضہ ملت ِاسلامیہ کو درپیش حالات کو مزید گھمبیر بنا دے گا۔ اسلام کے نام پر غلبہ وقبضہ جمانے والوں کی مخالفت پہلے علاقائی پولیس کی قوت سے ہوگی، پھر میڈیا اور رینجر وفوج کی قوت سے، اس کے بعد عالمی قوتیں اقوام متحدہ اور نیٹو وامریکہ کی سرپرستی میں ایسے کسی غلبہ جما لینے والے اسلامی گروہ کے خلاف اپنی قوتیں مجتمع کردیں گی۔غرض تکفیر وخروج اورتشدد وانتہا پسندی نہ تو اسلام کا منہاج ہیں اور نہ