کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 8
ہوئی ہوں۔پھر اُنہیں پھرایا جائے اور اُن کو کوڑے بھی لگائے جائیں۔ راوی کا بیان ہے کہ اس درسگاہ کا ایک نوجوان خاموش کھڑا تھا۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو خاموش کھڑے دیکھا تو اس کو زیادہ شدت کے ساتھ اللہ کا واسطہ دیا۔ وہ بول اُٹھا کہ اگر آپ مجھے اللہ کا واسطہ ہی دیتے ہیں تو پھر توراۃ میں تو سنگساری کی سزا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ پہلے پہل کیا ہوا تھا جو تم نے اللہ کے فیصلہ کو بدل ڈالا۔ تو وہ نوجوان گویا ہوا کہ ایک بار کسی یہودی بادشاہ کے قریبی رشتہ دار نے زنا کا ارتکاب کرلیا تو بادشاہ نے اس پرسنگساری کی سزا نافذ نہ کی۔ پھر جب عوام الناس میں سے کسی نے زنا کیا تو بادشاہ اس کو سنگسار کرنے لگا، تب اس شخص کا قبیلہ اس سزا کے نفاذ میں رکاوٹ بن گیا اور کہنے لگا کہ ہمارا بندہ بھی اس وقت تک سنگسار نہ ہوگا جب تک بادشاہ کا قریبی سنگسار نہ کیا جائے۔ غرض پھر سب نے اُس نئی سزا پر اتفاق کرلیا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارا فیصلہ توراۃ کے مطابق کروں گا، سو آپ نے مردو زَن کو سنگسار کروا دیا۔ امام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ چلا کہ قرآنِ کریم کی یہ آیت ِمبارکہ اسی واقعے پر نازل ہوئی : اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے توراۃ کو نازل کیا جس میں ہدایت او رروشنی ہے۔ اس توراۃ کے مطابق اللہ کے مطیع وفرمانبردار نبی فیصلے کرتے ہیں۔‘‘ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان انبیا میں شامل ہیں۔‘‘
اس حدیث ِمبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ سابقہ قوموں کی ہلاکت اور زوال کا سبب بھی امیر وغریب میں امتیازکرنااور قانون کے دوہرے معیار قائم کرنا تھا۔آج ہمارے ملک میں دین کے معاملات پوری سختی کے ساتھ اور دنیوی مفادات قانون سے مذاق کرکے فیصل کئے جاتے ہیں۔آج کے اس جمہوری دور سے بہتر تو یہودی بادشاہوں کا دور تھا کہ اس میں عوام اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو برداشت کرنے کی بجائے غیرمنصفانہ قانون کو بدلنے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ شرم کا مقام ہے کہ آج عوامی حاکمیت کے جمہوری نعرے نے عوام سے غیرمنصفانہ قانون کی تبدیلی کی قوت بھی چھین لی ہے اور ہم اس ظالمانہ نظام کو گلے سے لگائے بیٹھے اور اس کی مالا جپتے رہتے ہیں۔ جب تک معاشرے میں دوہرے معیارات کا خاتمہ نہ ہوگا، اس وقت تک قانون کی عمل داری اور اس کی توقیر کی توقع کرنا فضول ہے!!
(ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)