کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 6
کے تقاضے پورے کئے بغیر شدید تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئےمختلف ممکنہ جرائم کی سزائیں علیحدہ علیحدہ قید شمار کرکے اُسے 86 سال قید کی سزا دی ۔ یاد رہے کہ اس مقدمہ کے فیصلہ کے وقت سقوطِ خلافت (1925ء) کو بھی عین 86 سال پورے ہوچکے تھے۔ جج نے یہ قرار دیا کہ عدالتوں کا کام امریکی قوم کا وقار بلند کرنا اور امریکی عوام وافواج کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے ان کے خلاف ممکنہ جارحیت کو کم سے کم کرنا ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو عدالتوں کا مقصد فوت ہوجائے گا۔
الغرض اسی سال کے ان دو مشہور کیسوں اور امریکی عدالت کے فیصلہ کے تناظر میں ہماری انتظامیہ اور عدالتوں کے رویے کاطائرانہ جائزہ لیا جائے تو دوہرے معیار اور امتیاز ی رویے ہر ہر مرحلے پر آشکارا ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عدالتوں اور قانون کا احترام ختم ہوچکا ہے۔ وہ قانون جو غریب ومجبور کے لئے لوہے کا شکنجہ اور امیر ومقتدر کے لئے موم کی ناک ہو توکوئی بھی اس پر خلوصِ دل سے عمل پیرا ہونے کو تیار نہیں ہوتا۔ پھر نامعلوم کس بنا پر ماورائے عدالت قتل اور قانون کی بالادستی کا بلند آہنگ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔
آج ملک میں امن وامان اور بدامنی وبے چینی کی وجہ یہی عدالتی نظام ہے جس نے پورے ملک پر ہلاکت وبربریت اور دھوکہ وفراڈ مسلط ہوجانےکے باوجود آج تک کسی مجرم کو قرارِ واقعی سزا نہیں دی۔ اگر مالی معاملات میں عدالتیں انتظامیہ کے ہاتھوں مجبو رہیں تو کم ازکم دہشت گردی کے کسی مجرم کو تو سزا سنا کرعبرت کا نشان بنایا جاسکتا تھا لیکن ہمارا انگریزی عدالتی نظام اس قوت سے قاصر اور محروم ہے۔قانونی گرفت اور عدل وانصاف کے اس بوسیدہ نظام کی از سرنو تطہیر کی ضرورت ہے، وگرنہ مجرم یونہی دندناتے رہیں گے ، طاقتور قانون سے کھیلیں اور شریف وکمزور لوگ قانون کا نشانہ بنیں گے!!
آئیے دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عدالتی فیصلے کا مشاہدہ کریں اور اسلام کا مثالی عدل وانصاف ملاحظہ کریں۔سنن ابو داود میں سیدنا معمر رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ِمبارکہ مروی ہے:
زَنٰى رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ وَامْرَأَةٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: "اذْهَبُوا بِنَا إِلَى هٰذَا النَّبِيِّ فَإِنَّهُ نَبِيٌّ بُعِثَ بِالتَّخْفِيفِ فَإِنْ أَفْتَانَا بِفُتْيَا دُونَ الرَّجْمِ قَبِلْنَاهَا وَاحْتَجَجْنَا بِهَا عِنْدَ اللَّهِ، قُلْنَا: فُتْيَا نَبِيٍّ مِنْ أَنْبِيَائِكَ." قَالَ فَأَتَوْا النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ فِي أَصْحَابِهِ فَقَالُوا: يَا أَبَا