کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 5
’’گورنر پنجاب نے قانون توہین رسالت کو ’ کالا قانون‘قرار دیا تھا، ا س لیے گستاخِ رسول کی سزا موت ہے۔سلمان تاثیر گستاخِ رسول تھا، اس نے چونکہ قانون توہین رسالت کے تحت عدالت سےسزا پانے والی ملعونہ آسیہ مسیح کوبچانے کا عندیہ دے کر خود کو گستاخِ رسول ثابت کردیا تھا، اس پر میں نے اپنا فرض پورا کردیا۔ ‘‘ جبکہ ریمنڈ کا واقعہ ملکی قانون کا معاملہ تھا، جس میں ٹریفک قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے ، شہری امن وامان کو پامال کیا اور خوف وہراس پیدا کیا گیا۔ طرفہ تماشہ دیکھئے کہ ملکی قانون جہاں پامال ہوا، اس قضیہ کا فیصلہ ہماری عدالتیں شرعی واسلامی قانون قصاص ودیت کی آڑ لے کر کرتی رہیں اور جہاں شرعی مسئلہ زیر بحث تھا ، اس کا فیصلہ ہمارے جج حضرات ملکی قانون کی روشنی میں کرتے ہیں۔ یہ بھی واضح ہوا کہ ہر دو مقام پر شریعت کا فیصلہ اسلامیانِ پاکستان کی قومی وملی رجحانات کی تائید کرتا جبکہ دونوں مقامات پر قانونی ہتھکنڈوں سے عوامی جذبات کو پامال کیا گیا اور قانون کی پاسداری کو مجروح کیا گیا۔ غرض جو فیصلہ شریعت کی روشنی میں ہونا چاہئے تھا، اسے ملکی قانون کی آڑ میں اور جو ملکی قانون پر ہونا چاہئے تھا ، اسے شریعتِ اسلامیہ کی آڑ میں فیصل کیا گیا۔ 5. ریمنڈ کیس میں 49 یوم کی قید کو سزاے قید میں شمار کرکے انوکھی مثال قائم کی گئی جبکہ ممتاز قادری کی 10 ماہ پر محیط پرمشقت قیدکو سرے سے نظرانداز ہی کر دیا گیا۔ ریمنڈ کو محض 20 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا اور مقتولین نے آیا اُسے معاف کیا یا خون بہا لیا؟ یہ تفصیل آج تک قوم سے مخفی ہے۔ہمارے میڈیا پر بھی افسوس کہ وہ ہر مسئلہ کی تو بال سے کھال اُتارتا ہے لیکن آج تک اس معمہ کا کوئی سراغ لگانے سے قاصر ہے۔ جبکہ ممتاز قادری کو دو مرتبہ سزائے موت اور 2 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ریمنڈ کی سزا شمار ہونے والی قیدبھی بڑی پرسہولت اور باآسائش تھی، عدالتی افسران سے پررعونت گفتگو اس کا وطیرہ تھی جبکہ ممتاز قادری نے دورانِ قید کئی بار تشدد و امتیاز کی شکایت کی اور اُس کی تمام تر کاروائی مطالبے کے باوجود اڈیالہ جیل کے اندر ہی ہوتی رہی۔ 6. ایسا ہی ایک مشہور حالیہ مقدمہ عافیہ صدیقی کیس کا بھی ہے جس میں امریکی جج نے افغانستان میں ہونے والے ایک وقوعہ پر امریکی قانون کا اطلاق کیا، ملزمہ پر ثبوتِ جرم