کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 45
﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ1. وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ ﴾ [1] ’’(محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ تعالیٰ کےرسول ہیں اور جو لوگ آپ کےساتھ ہیں، وہ کفار پر بہت سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔‘‘ 8. نیز فرمایا: ﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ﴾[2] ’’بےشک مؤمن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ ثابت ہوا کہ دین اور عقیدے کا تعلق اس قدر مضبوط اور مستحکم ہے کہ اس نے تمام اہل ایمان کو اخوت اور بھائی چارے کےانتہائی پاکیزہ رشتے سےمنسلک کردیا ہے ، خواہ ان کے حسب و نسب، قوم ووطن، ذات و برادری اور زمان و مکان میں کتنی ہی دوری اور تفاوت ہو۔ 9. اللہ تعالیٰ نےفرمایا : ﴿وَ الَّذِيْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ﴾ [3] ’’اور ان کے لیے بھی جو ان (مہاجرین) کےبعد آئے اور دعا کرتے ہیں کہ ہمارے پروردگار! ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے، کہ جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں گناہ معاف فرما اور مؤمنوں کے واسطے ہمارےدلوں میں کینہ (بغض) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے ربّ! بےشک تو بڑا شفقت کرنے والااور رحم کرنیوالا ہے۔‘‘ لہٰذا تمام مومن اوّل تا آخر زمان و مکان کی دوریوں سے بالکل بےنیاز اور بالاتر آپس میں رشتہ اخوت سے منسلک ہیں، ایک دوسرے سے محبت کرتے، بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی اقتدا کرتے اور ایک دوسرے کیلئے دعائیں مانگتے اور استغفار کرتے رہتے ہیں۔ کفار سے محبت کی علامات دوستی اور دشمنی کی ان حدود کی تذکرے کے بعد یاد رہنا چاہیے کہ اسلام میں دوستی اور دشمنی کی بڑی واضح علامات بیان کی گئی ہیں۔ان علامات کو پیش نظر رکھ کر ہر شخص اپنے آپ کو تول سکتا ہیں کہ وہ کس قدر اسلام کے دوستی اور دشمنی کے معیارپرپورا اُتر رہا ہے؟ اوّلاً: ان اُمور کو بیان کرتے ہیں جو کفار سےدوستی اورمحبت کی دلیل ہیں، جودرج ذیل ہیں:
[1] الفتح:29 [2] الحجرات:10 [3] الحشر: 10