کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 4
تیار نظر نہ آئے۔ جبکہ دوسری طرف ممتاز قادری کی حمایت میں جلوس نکالے گئے، اور وکلا کی ایک بڑی تعداد نے اس کی مفت وکالت کا اعلان کیا۔ عوامی رجحان کی انتہا دیکھئے کہ پنجاب کا چیف جسٹس خواجہ محمد شریف اپیل کے مراحل میں اس کی وکالت کا خواہش مند بنا۔اُس کی سزا کے خلاف پورا ملک سراپا احتجاج بنا۔ گویا ریمنڈ ڈیوس کا اقدام قتل تین معصوم انسانوں کے خلاف تھا اور ممتاز قادری کا اقدام قتل کم ازکم الفاظ میں ایک غیرمعصوم شخص کے خلاف تھا۔ اسی بنا پر دونوں وقوعہ جات پر عوامی رد عمل یکسر مختلف رہا۔ پہلے واقعہ سے قومی وملی تشخص بری طرح پامال ہوا اور دوسرے واقعہ سے دینی غیرت و حمیت کو تائید وتقویت حاصل ہوئی ۔
3. ریمنڈ کا واقعہ سراسر دہشت گردی کا واقعہ تھا لیکن ہماری پولیس نے پہلے پہل اس کے لئے فرضی مقدمات درج کرکےاس کو بچانے کی کوشش کی، اُس کی جارحیت کو دفاع کا رنگ دینا چاہا اور جب آخر کا ریہ ممکن نہ رہا تو پھر ایک صریح دہشت گردانہ واقعہ کو دہشت گردی ایکٹ سے بچا کر جرائم کی عام دفعات اس پر لاگو کیں۔ چنانچہ ریمنڈ ڈیوس پر انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں کوئی مقدمہ نہ چلایا گیا جبکہ ممتاز قادری کا مقدمہ جو ایک ملی حمیت وغیرت کا مقدمہ تھا، اس کو دہشت گردی کی عدالت میں چلاتے ہوئے 10 ماہ اس کے فیصلے پر صرف کئے گئے۔گویا جس مقدمہ کو دہشت گردی کی عدالت میں چلنا چاہئے تھا، اس کو عام عدالت میں چلایا گیا اور جس کو عام عدالت میں چلنا چاہئے تھا، اس پر دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دورانِ سماعت نہ تو دہشت گردی کی کوئی تفصیل پیش کی گئی اور نہ ہی اس کے قانونی تقاضے پورے کئے گئے۔جرم کے تعین میں یہ جانبداری علاقائی انتظامیہ کی شرکت وتائید کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی اور دورانِ سماعت یہ رویہ عدالتی افسر کے رجحانات کا غماز ہے۔
4. ممتاز قادری کا واقعہ خالصتاً شرعی نوعیت کا مسئلہ ہے جس میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کو نشانہ بنانے کے ردعمل میں یہ اقدام کیا گیا ، ممتاز قادری نے پہلے بیان میں ہی اپنے مقصود ومدعا کا تعین کردیا تھا جو خالصتاً شرعی نوعیت کا مقدمہ تھا۔ اس نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ