کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 33
بنالیں گے وہ جہالت کے ساتھ فیصلے کریں گے چناچہ وہ خود بھی گمراہ ہوں اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘[1] آج سے پہلے آپ نے یہ بات کہی تھی، وہ ہمارے وقت پر کیسے صادق آرہی ہے ۔ابن بطال فرماتے ہیں: ’’اس حدیث پر مشتمل قیامت کی جتنی علامات بیان کی گئیں ہیں، وہ سب خاص طور پر ہم نے اپنے زمانے میں دیکھ لی ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ علم کم ہوگیا ہے اور جہالت عام ہوگئی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں بخیلی بڑھ گئی ہے،فتنے عام ہوگئے ہیں اور قتل و غارت کثرت سے ہونے لگی ہے۔‘‘[2] اسی وجہ سے سلف طلب ِعلم پر اُبھارتے تھے۔عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’علم قبض ہونے سے پہلے لازمی حاصل کرو اور اس کا قبض ہونا علما کا چلے جانا ہے، تم پر عمل کرنا لازم ہے ۔بلاشبہ تمہارا کوئی ایک نہیں جانتا کہ کب وہ اس کا محتاج ہو جائے،لہٰذا تم پر علم حاصل کرنا لازم ہے،ہاں کنہ وکرید سے بچ جاؤ۔‘‘ [3] سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’مجھے افسوس ہے کہ علما جا رہے ہیں اور تمہارے جہلا ’علم‘سیکھتے ہی نہیں۔لوگو!علم اُٹھ جانے سے پہلے سیکھ لو،کیونکہ علم علما کے چلے جانے سے اٹھ جاتا ہے۔‘‘[4] اس بات کا کلی مصداق ہمارے زمانے میں ظاہر ہو گیا ہے۔چنانچہ علم صرف تھوڑے سے لوگوں کے پاس باقی رہ گیا ہے۔حسبنا اللہ ونعم الوکیل نوٹ: علم کے اٹھائے جانے سے مراد دینی اور شرعی علم کا اُٹھ جانا ہے، جیساکہ آج ہمارے زمانے میں ہوا ہے۔ جہاں تک دنیوی یا سائنسی علوم کی بات ہے تو اس میں روز بروز ترقی ہورہی ہے اور دنیوی مفادات سے متعلقہ علوم میں بہت سا اضافہ ہوچکاہے۔
[1] شرح مسلم از امام لنووی:16/224 [2] سیر اعلام النبلاء:18/47،شذرات الذہب:3/283 [3] سنن الدارمی:1/68 [4] سنن الدارمی:1/69