کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 32
لیڈر بنائیں گے۔ان سے سوال کریں گے وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے چنانچہ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور اُنہیں بھی گمراہ کریں گے۔‘‘ [1]
ابو امامہ باہلی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر اونٹ پر فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے سوار تھے ،کھڑے ہو گئے اورفرمایا:
’’اے لوگو!علم قبض اور اُٹھ جانے سے سے پہلے لے لو۔‘‘ چنانچہ اللہ نے فرمایا: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ1ۚ وَ اِنْ تَسْـَٔلُوْا عَنْهَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ1. عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا1. وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۰۰۱۰۱ ﴾ [2]
امامہ ابو باہلی فرماتے ہیں:
’’جب یہ آیت نازل ہوئی تو ہم آپ سے زیادہ سوال کرنا پسند نہیں کرتے تھے اوربچنے کی کوشش کرتے تھے ۔ فرماتے ہیں ایک دفعہ ہمارے پاس ایک اَعرابی آیا ہم نے اسے ایک چادر رشوت میں دی، اس نے پگڑی باندھ لی، میں نے اس کے دائیں جانب لٹکائے ہوئے پگڑی کے کپڑے کا حاشیہ بھی دیکھا۔ پھر ہم نے اسے کہا آپ سے سوال کر ۔چنانچہ اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! علم کیسے اٹھا لیا جائے گا جبکہ مصاحف ہمارے پاس ہیں، ان سے ہم خود بھی سیکھتے ہیں اپنے بچوں ،عورتوں اور خادموں کو سکھلاتے ہیں ؟ آپ نے اپنا سر مبارک اٹھاتے ہوئے فرمایا: تیری ماں تجھے گم پائے۔ یہ یہودونصاریٰ ہیں،کیا ان کے پاس مصاحف نہیں ہیں، اس کے باوجود ان کے انبیا جو لے کر آئے تھے اس میں ایک حرف سے بھی ان کا تعلق نہیں، خبردارعلم چلے جانے سے مراد علما کا چلا جانا ہے۔‘‘ [3]
امام نووی فرماتے ہیں کہ
’’عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی گذشتہ حدیث کے حوالے سے مراد یہ نہیں کہ حفاظ کے سینے سے مٹ جائے گا بلکہ اس سے مراد ہے کہ علما چل بسیں گے۔لوگ جہلا کو لیڈر
[1] صحیح بخاری:100
[2] المائدۃ:101
[3] مسند احمد:5/266؛سنن دارمی(1/68)مختصر