کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 28
2۔دوسرا یہ کہ (لوگ) احکام ِشرعیہ کی اہانت کرنے کی خاطر یوں کریں گے۔
3. تیسری رائے یہ ہے کہ یہاں قیامت سے پہلے حالات کی خرابی کی طرف اشارہ ہے۔نووی فرماتے ہیں کہ اسے اولاد کو ماؤں کےساتھ سلوک کا مفہوم متعین کرتے ہوئے اس پر محمول نہ کیا جائے کہ جائز بیٹا ہی اپنی ماں کو خریدے گا بلکہ ان کے علاوہ صورتوں میں بھی اسے متصور کیا جائے گا۔ وہ اس طرح کہ لونڈی "وطء شبهة" ’رفیق نکاح‘ یا ’زنا‘ کی وجہ سے ایک ایسے آزاد کو جنم دیتی ہے، ایسا آزاد جو کہ اس کے حقیقی مالک سے نہیں ہے۔ پھر لونڈی کو دونوں صورتوں میں جائز بیع کرتے ہوئے فروخت کر دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی اس کی فروختنی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے حتی کہ اس کا بیٹا یا بیٹی اسے خرید لے گی۔
4. چوتھا قول:اولاد والدین کی بڑی نافرمان ہو جائے گی۔بیٹا اپنی ماں کی توہین کرتے ہوئے ایسے پیش آئے گا جیسے مالک اپنی لونڈی سے پیش آتا ہے۔اسے گالیاں دے گا ، مارے گا اور خدمت لے گا۔ اسے مجازی طور پر مالک کہا گیا ہے یا پھر یہ مراد ہو گی کہ مربی کا ربّ بن جائے گا تو اس وقت اسے حقیقت پر محمول کیا جائے گا۔اپنے عموم کے اعتبار سے یہ بہترین توجیہ ہے،کیونکہ حدیث اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ حالات خراب ہو جائیں گے۔ معاملات اُلٹ پلٹ ہو جائیں گے اور مربیّٰ (جس کی تربیت کی جاتی ہے)، خود وہ مربّی (تربیت کرنے والا) ہو جائے گا۔
باقی رہی یہ بات کہ لوگ عمارتوں پر فخر کریں گے تو وہ ہمارے زمانے میں ظاہر ہی ہے۔لوگ کثرتِ مال کے سبب تزیین وآرائش کے ساتھ گھروں کو وسیع کرنے میں مسابقت کر رہے ہیں۔حتی کہ فقیر وضرورت مند لوگوں نے بھی کئی منزلہ گھر بنالئے ہیں اور اس میں مسابقت بھی کر رہے ہیں۔
یہ تمام باتیں جن کی صادق ومصدوق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، پوری ہو چکی ہیں جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کی حدیث سے واضح ہے اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں بھی آتا ہے کہ جبریل ؑ نے آپ سے کہا کہ مجھے قیامت کے متعلق بتائیے، وہ کب آئے گی؟تو آپ نے فرمایا: