کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 27
کثرت سے فروخت ہو ں گی۔تاجر یا خریدنے والوں کے ہاتھوں اس کثرت فروختنی کی وجہ سے بیٹا لاعلمی میں اپنی ماں خرید بیٹھے گا۔ان مفاہیم کے علاوہ بھی چند مفاہیم نکالے گئے ہیں۔ہماری رائے میں یہ تمام مفاہیم کمزور اور فاسد ہیں، اس لیے ہمیں ان سے تعرض نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ [1]
علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگرچہ اس حدیث کے مفہوم میں سلف وخلف کے ہاں اختلاف ہے لیکن ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں سات طرح کے اقوال کا اختلاف ہے،لیکن وہ سب آپس میں ملتے جلتے ہیں۔میں ان کے مشترکہ مفاہیم چھوڑ کر ان کا خلاصہ بیان کروں تو وہ چار طرح کے اقوال ہوں گے جو درج ذیل ہیں:
1.خطابی فرماتے ہیں:’’اسلام کی وسعت سے مراد اہل اسلام کا سرزمین شرک پر غلبہ ہے، ان کی اولادوں کو قید کرنا ہے ۔اس وقت جب کوئی شخص لونڈی کا مالک بن کر اس سے بچہ پیدا کرے گا تو وہ بچہ اس لونڈی کا مالک ہو گا،کیونکہ وہ اس کے مالک کا بیٹا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اکثر علما نے اگرچہ یہی رائے اپنائی ہے،لیکن مجھے اس رائے کو تسلیم کرنے میں تامل ہے،کیونکہ جب بات آپ نے فرمائی تھی یا اسلام کا آغاز تھا تو اس وقت بھی لونڈیاں مسلمانوں کے لیے بچے جنم دے رہیں تھیں جبکہ حدیث کا سیاق کلام ایسی بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو ابھی ہوئی نہیں بلکہ قربِِ قیامت واقع ہونی ہے۔‘‘
2. دوسرا قول یہ ہے کہ مالکائیں ایسی ماؤں کو فروخت کریں گی جو اولاد والی ہوں گی۔یہ کام اتنی کثرت سے ہو گا کہ بادشاہوں کی عادت بن جائے گی کہ وہ اولاد والی لونڈیاں خریدیں ۔ ایسے ہی لا شعوری میں بیٹا اپنی ماں خریدے گا۔واضح رہے کہ قیامت کے نزدیک یہ دو وجہ سے ہو گا:
1۔یا تو یہ جہالت کی بنیاد پر ہو گا کہ لوگوں کو یہ پتا ہی نہیں ہو گا کہ بچوں والی مائیں فروخت کرنا حرام ہے۔
[1] شرح صحیح مسلم:1/158