کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 23
متوجہ ہوئے جو کہ بنو اسد پر عامل تھے ۔اُنہوں نے لوگوں کو مرتد کے خلاف کھڑا ہونے کا حکم دیا،لہذا طلیحہ کی قوت کمزور ہو گئی اس کامؤاخذہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ بچا، پس اس پر تلوار چلائی گئی،لیکن تلوار نے اس پر کچھ اثر نہ کیا تو لوگوں کے درمیان یہ اس حیثیت سے مشہور ہوا کہ تلوار اس پر اثر نہیں کرتی،لہٰذااس کی جمعیت زیادہ ہو گئی۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور یہ لوگ ابھی اسی روش پر قائم تھے۔جب حضرت ابو بکر نے امر خلافت کا قلمدان سنبھالا تو خالد بن ولیدکی قیادت میں اس کی طرف لشکر بھیجا۔دونوں لشکروں کا ٹکراؤ ہوا۔طلیحہ کا لشکر ہزیمت سے دوچار ہوا تو وہ اپنی بیوی کے ساتھ ملک شام کی طرف بھاگ گیا، پھر اس کے بعد وہ اسلام لے آیا اور اس کا اسلام بہتر ہو گیا۔ وہ مسلمانوں کے لشکر سے جا ملا اور بڑی جانفشانی کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔
ان جھوٹے مدعیانِ نبوت میں سے مسیلمہ کذاب بھی ہے جو بنو حنیفہ کی جماعت کے ساتھ ہجری کے نویں سال وفد کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔وفد کے یمامہ جانے کے بعد یہ اللہ کا دشمن مرتد ہو گیا او ر دعواے نبوت کر تے ہوئےکہا: کہ میں اس معاملے میں اللہ کے رسول کے ساتھ شریک ہوں اور اس کا دعویٰ تھا کہ تاریکی میں اس کے پاس وحی آتی ہے اسکی طرف سیدنا ابوبکر نے خالد بن ولید، عکرمہ بن ابی جہل اور شرحبیل بن حسنہ کی سرپرستی میں لشکر بھیجا تو مسیلمہ نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا سا منا کیا، اس کے پاس چالیس ہزار جنگجو تھے۔ان کے درمیان فیصلہ کن معرکہ ہوا جس میں مسیلمہ اور اسکے لشکر کو شکست ہوئی۔ مسیلمہ وحشی بن حرب کے ہاتھوں قتل ہوا۔حق کو غلبہ حاصل ہوا اور عَلَمِ توحید بلند ہوا۔
جھوٹے کذابین میں سے سجاح بنت حارث تغلبیہ بھی ہے، جو عرب کے عیسائیوں میں سے تھی۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نبوت کا دعوی کیا تو اس کی قوم اور غیر قوم سے بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے۔ ارد گرد کے قبائل اس سے مل گئے حتی کہ یہ بنو تمیم تک پہنچ گئی اور ان سے معاہدہ کیا۔ اس نے پیش قدمی کو جاری رکھا یہاں تک کہ وہ یمامہ گئی اوروہاں مسیلمہ اور اس کے ساتھیوں سے ملی۔مسیلمہ سے شادی رچائی اور جب مسیلمہ کا قتل ہوا تو اپنے شہر واپس چلی گئی اور اپنی قوم بنی تغلب میں اقامت پذیر ہو گئی۔ اس کے بعد