کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 22
(( لا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشركين وحتى يعبدوا الأوثان وإنه سيكون في أمتي ثلاثون كذابون، كلهم يزعم أنه نبي، وأنا خاتم النبيـين لا نبي بعدي)) [1]
’’ قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ میری اُمت کے کچھ قبائل مشرکین سے مل جائیں گے اور وہ بتوں کی پوجا کریں گے اور بلاشبہ میری اُمت میں تیس جھوٹے ہوں گے۔ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میں خاتم النّبیین ہوں،میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
ماضی میں ان لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ظاہر ہوئی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخر حیات میں اسود عنسی نے یمن میں دعواے نبوت کیا۔ اس لحاظ سے یہ اسلام میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پہلا ارتداد ہے۔اسود عنسی کے جنگجو ساتھی بھی متحرک ہوئے اور وہ یمن کے تمام حصوں پر قابض ہوگئے۔اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کا علم ہوا تو آپ نے وہاں مسلمانوں کی طرف پیغام بھیجا جس میں آپ اُنہیں دشمنوں کے سامنے کھڑا ہونے اور ان سے لڑائی کرنے پر اُبھار رہے تھے تو مسلمانوں نے اس پر لبیک کہا اور اسی جگہ اسود کی بیوی کے تعاون سے اسے قتل کیا کہ جس سے اسود نے اس کے خاوند کے قتل کے بعد زبردستی شادی کر لی تھی، حالانکہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والی تھی۔ اسود کے قتل ہونے سے اسلام اور اہل اسلام کو غلبہ حاصل ہوا اور اُنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے خط لکھا۔اس رات آسمان سے بھی آپ کو خبر آ گئی تو آپ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خبر دی۔اس جھوٹے نبی کے ظہور سے لے کر اس کے قتل تک تین ماہ کا عرصہ ہے اور ایک قول کے مطابق یہ وقفہ چار ماہ کاتھا۔
اوران جھوٹے مدعیانِ نبوت میں سے طلیحہ بن خویلد اسدی ہے جو 9 ہجری کو بنو اسد کے وفد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔یہ لوگ اسلام لائے اور اپنے شہروں کی طرف لوٹ گئے۔طلیحہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں نبوت کا دعویٰ کر دیا تو ضرار بن ازو ر اس کی طرف
[1] جامع ترمذی:2229