کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 2
کتاب: محدث شمارہ 352 مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور ترجمہ: بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر ونظر ممتاز قادری اور ریمنڈ ڈیوس کیسوں کا دوہرا معیار قانون پر عمل کیوں نہیں ہوتا اور عدالتیں کیوں مذاق بن گئیں...؟ راولپنڈی میں دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر 2 نے ممتاز حسین قادری کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے 10 ماہ کے بعد یکم اکتوبر کو آخرکار مقدمہ کا فیصلہ سنا دیا۔ ماضی میں سرزمین پاکستان پر پہلے بھی توہین رسالت کے واقعات پیش آتے رہے اور شاتم رسول کو محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیفر کردا ر تک پہنچاتے رہے۔ اُس وقت نافذ العمل انگریزی قانون ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ سے قاصر تھا۔ لیکن 80 کی دہائی کی 8 سالہ مسلسل قانونی جدوجہد کے بعد ، ملک بھر کے علماے کرام، وفاقی شرعی عدالت اور پارلیمنٹ سے ناموسِ رسالت کے تحفظ کی خاطر ایک قانون تشکیل دیا گیا۔ اس قانون کی انتہائی ضرورت محسوس کی جارہی تھی، تاہم قانون مذکور کے باوجود ماضی کی طرح پھر محبانِ رسول کو خود ہی اقدام کرنا پڑا اورانگریزی اَدوار کی طرح ایک بار پھر ملکی قانون کی آڑ لے کرتوہین رسالت کی ملزمہ کی معاونت اور تائید کرنے والے گورنر پنجاب کے قاتل کو دہشت گردی عدالت نے دوبار سزاے موت سنائی اور دو لاکھ روپے بطورِ جرمانہ عائد کردیا۔ جہاں تک فیصلہ مذکور کے درست یا غلط ہونے کا تعلق ہے تو عدالت کے جج پرویز علی شاہ نے خود اس کا تعین فیصلہ سنانے کے موقع پر ان الفاظ میں کردیا کہ ’’شرع اسلامی کی رو سے ممتاز قادری کا اقدام درست ہے، تاہم میں پاکستانی قانون کی بنا پر اُسے یہ سزا سناتا ہوں۔‘‘ آئندہ دنوں میں علماے کرام اور محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جج پرویز علی شاہ کے اس فیصلہ پر مکالمہ ومباحثہ کرتے رہیں گے اور یہ موضوع شرعی وقانونی حلقوں کا اہم عنوان بنا رہے گا، اس بنا پر اس فیصلہ کے شرعی وقانونی تبصرہ سے قطع نظر ہم ذیل میں پاکستان کے عدالتی نظام کا جائزہ لیتے ہوئے ممتاز قادری اور مشہور مقدمہ ریمنڈ ڈیوس کے فیصلوں کا باہمی تقابل قارئین